AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday 24 December 2019

سعود عثمانی

یہ دشتِ دل ہے'یہاں کوئی بھی نہیں آتا
سو ہم نےدفن یہیں سب خزانہ کردیا ہے

سعودعثمانی ۔۔۔!!!

Friday 29 November 2019

آنس معین

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
آنس معین

دوسطری

‏‎کچھ اہلِ ستم، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے..
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے..

Tuesday 26 November 2019

عبد الحمید عدم

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں 
جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا 
عبد الحمید عدم

Tuesday 19 November 2019

دوسطری

تا به زُلفِ سِیَهش دل بستم
از پریشانیِ عالَم رَستم
(ظهیرالدین محمد بابُر)

جُوں ہی میں نے اُس کی زُلفِ سیاہ سے دل باندھا، مَیں پریشانیِ عالَم سے رَہا ہو گیا۔۔۔۔

Saturday 16 November 2019

Wednesday 13 November 2019

دوسطری

ﮐﻞ ﺑـﮯ ﻭﺟﮧ ﮐﺘﺎﺏ ﺳـﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﮐﺮ

ﺗﺎ ﺩﯾــﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﮬﺎ ﮐﻮﺋﯽ...!!

Sunday 10 November 2019

مرزا عبدالقادر بیدل

مستغنی از گل است مزارِ شهیدِ عشق

ای  غنچه لب ‌، تو بر سرِ خاکم بیا بخند

(بیدل)

    " عشق کے شہید کا مزار پھول کا محتاج نہیں ھوتا ، اے کلی (جیسے تنگ ) منھ والے ! میری قبر پہ آکے ھنس دے "

Wednesday 6 November 2019

جہان ملک خاتون

به خُدایی که جُز او نیست خُداوندِ جهان
که مرا عشقِ تو شد در همه دم هم‌دمِ جان
(جهان‌ملِک خاتون)

اُس خُدا کی قسم کہ جِس کے بجُز [کوئی] خُداوندِ جہان نہیں ہے!۔۔۔ کہ تمہارا عشق ہر دم میری جان کا ہم‌دم ہو گیا [ہے]۔۔۔

Wednesday 30 October 2019

حیدر علی آتش

عدم سے دہر میں آنا کسے گوارا تھا 
کشاں کشاں مجھے لائی ہے آرزو تیری 
۔۔۔۔۔۔
حیدر علی آتش

شیخ یعقوب صرفی

گرچه دانم که به وصلِ تو رسیدن نتَوان
لیکن از راهِ طلب پای کشیدن نتَوان
(شیخ یعقوب صَرفی کشمیری)

اگرچہ میں جانتا ہوں کہ تمہارے وصل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔۔۔ لیکن راہِ طلب سے پاؤں نہیں کھینچا جا سکتا۔۔۔

خلیل الرحمٰن اعظمی

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی 
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا 
خلیل الرحمن اعظمی 

Monday 28 October 2019

تیمور حسن تیمور

تیمور  اپنے درد کا احساس تب ہوا 
جب اس نے یہ کہا کہ بتانا تو تھا مجھے
 

Sunday 27 October 2019

دو سطری

تُمھارے حق میں کوئی فیصلہ ھُوا ھوگا

جو یہ نظام تُمھیں مُنصفانہ لگتا ھے

خواجہ وزیر لکھنوی

اسی خاطر تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

(خواجہ وزیر لکھنوی)

Saturday 28 September 2019

سید علی مطہر اشعر

کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لئے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے
وہ بھی مجرم ہے بغاوت نہیں کی ہے جس نے
اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے
ساری بستی کو پرکھنا تو مناسب بھی نہیں
ایک دروازے کی زنجیر ہلا دی جائے
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو بلا اِستثناء
اس ستم گر کو بھی جینے کی دعا دی جائے
دم بھی گھٹ جائے تو پندار کی تذلیل نہ ہو
روزنِ در سے کسی کو نہ صدا دی جائے
میری آواز بھی اب اُس پہ گراں ہے اشعرؔ
آسماں تک کوئی دیوار اٹھا دی جائے

سید علی مطہر اشعر

Thursday 19 September 2019

آزاد نظم

زبانوں کا بوسہ

زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے!
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی اُٹھتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے!
مرے ذہن کے ریزے ریزے میں اک آنکھ سی کھل گئی ہے
تم اپنی زباں میرے منہ میں رکھے,
جیسے پاتال سے میری جاں کھینچتے ہو,,
یہ بھیگا ہوا گرم و تاریک بوسہ
اماوس کی کالی برستی ہوئی رات جیسے اُمڈتی چلی آ رہی ہے

ریاض ملک

اکبر الہ آبادی

تیار تھے نماز پہ ہم سن کے زکر حور
جلوہ بتوں کا دیکھ کے نیت بدل گئی
اکبر الہ آبادی

Friday 13 September 2019

شہزاد احمد

فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے

اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے

کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی

ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے

Tuesday 10 September 2019

فارسی

بے تو بُوئے گُل مرا دودِ کبابِ بُلبُل است
جلوۂ شبنم، نمک پاشیدنِ زخمِ گُل است

تیرے بغیر، میرے لئے پھولوں کی خوشبو ایسے ہے جیسے کے بلبل کے جلنے کی بُو، اور اوس کا گرنا ایسے ہے جیسے پھولوں کے زخموں پر نمک پاشی!

Saturday 7 September 2019

میثم علی آغا

تمہاری آنکھیں ، سمندر کے پانیوں سے بنی
تمہارے ھونٹ ، بنائے گئے گلابوں سے

”میثم علی آغا“

Thursday 5 September 2019

دو سطری

‏روک لیتاہوں توکہتی ہےکہ جانےدومجھے "

جانےدیتاہوں توکہتی ہےیہی چاہت تھی ؟

Saturday 17 August 2019

دوسطری

میرے لئے تو یہ بھی اذیت کی بات تھی

تجھ کو بھی دل کا حال سنانا پڑا مجھے

Friday 9 August 2019

ساحر لدھیانوی

خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

ساحر لدھیانوی​

Friday 2 August 2019

عاشق اصفہانی

برائے خاطرِ بیگانگاں خطا کردی
کہ ترکِ صحبتِ یارانِ آشنا کردی

تُو نے بیگانوں کی خاطر (خاطرِ طبع) کیلیئے خطا کی کہ یارانِ آشنا کی صحبت ترک کر دی۔

خُوشَم کہ ذوقِ شکارَم نرَفت از دلِ تو
ہزار بار مرا بستی و رہا کردی

میں خوش ہوں کہ میرے شکار کا ذوق تیرے دل سے نہیں گیا کہ ہزار بار تو نے مجھے قید کیا اور ہزار بار رہا۔

(عاشق اصفہانی)

حافظ

وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقتِ ما کافری ست رنجیدن

ہم وفا کرتے ہیں، ملامت سہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں کہ ہماری طریقت میں رنجیدہ ہونا کفر ہے۔

بہ پیرِ میکدہ گفتم کہ چیست راہِ نجات
بخواست جامِ مے و گفت بادہ نوشیدن

میں نے پیرِ میکدہ سے پوچھا کہ راہ نجات کیا ہے، اس نے جامِ مے منگوایا اور کہا مے پینا۔

مَبوس جُز لبِ معشوق و جامِ مے حافظ
کہ دستِ زہد فروشاں خطاست بوسیدن

اے حافظ محبوب کے لب اور مے کے جام کے سوا کسی کا بوسہ نہ لے کہ پارسائی بیچنے والے زاہدوں کا ہاتھ چومنا خطا ہے۔

(حافظ شیرازی)

حافظ

زاں پیشتر کہ عالَمِ فانی شَوَد خراب
ما را بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کُن

(حافظ شیرازی)

منظوم ترجمہ ڈاکٹر خالد حمید

قبل اس کے سارا عالَمِ فانی خراب ہو
مجھ کو بہ جامِ بادۂ گلگوں خراب کر

حافظ

آن دم کہ دل بہ عشق دہی خوش دمے بود
درکارِ خیر حاجتِ ہیچ استخارہ نیست
(حافظ شیرازی)

جب دل کو عشق میں لگا دیا، وہی اچھا وقت ہو گا
کارِ خیر میں کسی استخارہ کی ضرورت نہیں ہے

حافظ

عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند

(حافظ شیرازی)

صبح صبح جیسے لوگ اپنے اپنے کاروبار کی طرف جاتے ہیں، محبت کا دکھ اٹھانے والے (عشاق) دوست کے کوچے کی طرف جاتے ہیں۔

Tuesday 23 July 2019

قطعہ


ہر گز مجھے قبول نہیں ضد تری کہ میں
خود داریوں کو بیچ کر پاس وفا کروں

یہ سر مجھے عزیز ہے عزت کی حد تلک
عزت نہیں تو سر کا میں گردن پہ کیا کروں

Monday 22 July 2019

عزیز قیسی

آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
کیا کہوں اور کہنے کو کیا رہ گیا

بات کیا ہے کہ سب غرقِ دریا ہوئے
اِک خدا رہ گیا ناخدا رہ گیا

سوچ کر آؤ کوئے تمنا ہے یہ
جانِ من جو یہاں رہ گیا رہ گیا

دل کے وحشت سرا سے خدا جانے کیوں
سب گئے ایک داغِ وفا رہ گیا

ان کی آنکھوں سے کیسے چھلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا رہ گیا

ایسے بچھڑے سبھی رات کے موڑ پر
آخری ہمفسر راستہ رہ گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزیز قیسی

Sunday 30 June 2019

امیر خسرو

دلم در عاشقی آوارہ شُد، آوارہ تر بادا

تَنم از بیدِلی بیچارہ شد، بیچارہ تر بادا

مرا دل عشق میں آوارہ ہے، آوارہ تر ہو جائے

مرا تن غم سے بے چارہ ہوا، بے چارہ تر ہو جائے

گر اے زاہد دعائے خیر می گوئی مرا ایں گو

کہ آں آوارہء کوئے بتاں، آوارہ تر بادا

اگر مجھ کو دعائے خیر دینی ہے تو کہہ زاہد

کہ وہ آوارۂ کوئے بتاں آوارہ تر ہو جائے

دلِ من پارہ گشت از غم نہ زانگونہ کہ بہ گردد

اگر جاناں بدیں شاد است، یا رب پارہ تر بادا

مرا دل پارہ پارہ ہے، نہیں امّید بہتر ہو

اگر جاناں اسی میں شاد ہے تو پارہ تر ہو جائے

ہمہ گویند کز خونخواریش خلقے بجاں آمد

من ایں گویم کہ بہرِ جانِ من خونخوارہ تر بادا

سبھی کہتے ہیں خونخواری سے اُسکی خلق عاجز ہے

میں کہتا ہوں وہ میری جان پر خونخوارہ تر ہو جائے

چو با تر دامنی خو کرد خسرو با دوچشمِ تر

بہ آبِ چشمِ مژگاں دامنش ہموارہ تر بادا

دو چشمِ تر سے خسرو کو ہوئی تر دامنی کی خُو

برستی آنکھ سے دامن مگر ہموارہ تر ہو جائے

Tuesday 25 June 2019

اعزاز احمد آذر

خود اپنی ذات سے اب تک مصالحت نہ ہوئی
چلے سفر پہ تو گھر کو مراجعت نہ ہوئی

کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں، مفاہمت نہ ہوئی

وہ شخص اچھالگا اُس سے صاف کہہ ڈالا
یہ دل کی بات تھی ہم سے منافقت نہ ہوئی

زباں سے کہنا پڑا جو نہ کہنا چاہا تھا
وفا کی بات اشاروں کی معرفت نہ ہوئی

لُٹا کے بیٹھے ہیں نیندیں، گنوا کے چین آذر
یہ کار وبار ہی ایسا تھا کچھ بچت نہ ہوئی

Monday 24 June 2019

وحشی بافقی

به غم کسی اسیرم که ز من خبر ندارد
عجب از محبت من که در او اثر ندارد

غلط است هر که گوید که به دل رهست دل را
دل من ز غصه خون شد دل او خبر ندارد

وحشی بافقی

Saturday 22 June 2019

دو سطری

اس معرکے میں  عشق بیچارہ کرے گا کیا

خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے

Monday 10 June 2019

امیر مینائی

امیر مینائی

بات رکھ لی مری قاتل نے گنہگاروں میں
اس گنہ پر مجھے مارا کہ گنہگار نہ تھا

Thursday 6 June 2019

افتخار حیدر

دن بھر اس کی یاد کا شربت پینے سے پرہیز کیا
شام ڈھلے تک روزہ رکھا رات گئے افطاری کی

افتخار حیدر

Sunday 2 June 2019

عدیم ہاشمی

کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
عدیم ہاشمی

Saturday 1 June 2019

دوسطری

کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے

Thursday 30 May 2019

شوکت فہمی

دستِ  ضروریات  میں  بٹتا  چلا  گیا
میں بے پناہ شخص تھا، گھٹتا چلا گیا

پیچھے ہٹا میں راستہ دینے کے واسطے
پھر یوں  ہوا  کہ  راہ  سے  ہٹتا چلا  گیا

عجلت تھی اس قدر کہ میں کچھ بھی پڑھے بغیر
اوراق   زندگی   کے   پلٹتا   چلا   گیا

جتنی  زیادہ  آگہی  بڑھتی  گئی   مری
اتنا   درونِ   ذات   سمٹتا   چلا   گیا

کچھ دھوپ زندگی کی بھی بڑھتی چلی گئی
اور کچھ خیالِ یار بھی چھٹتا چلا گیا

اجڑے ہوئے مکان میں کل شب ترا خیال
آسیب  بن  کے  مجھ  سے  لپٹتا چلا  گیا

اس  سے  تعلقات  بڑھانے  کی  چاہ  میں
فہمی  میں اپنے  آپ سے  کٹتا  چلا  گیا

(شوکت فہمی)

Wednesday 29 May 2019

مظفر وارثی

میری خوشبو کو نہ راس آئی ہوا کی دوستی
میں گلی کوچوں میں رسوا تھا مگر اتنا نہ تھا

مظفر وارثی

Sunday 26 May 2019

سیماب اکبر آبادی

مجھ سے ملنے کے وہ کرتا تھا بہانے کتنے
اب گزارے گا مرے ساتھ زمانے کتنے
میں گرا تھا تو بہت لوگ رکے تھے لیکن،
سوچتا ہوں مجھے آئے تھے اٹھانے کتنے
جس طرح میں نے تجھے اپنا بنا رکھا ہے،
سوچتے ہوں گے یہی بات نہ جانے کتنے
تم نیا زخم لگاؤ تمہیں اس سے کیا ہے،
بھرنے والے ہیں ابھی زخم پرانے کتنے
سیماب اکبر آبادی

بشیر فاروقی

دھوپ رکھ دی تھی مقدر نے سرہانے میرے
عمر بھر آگ  میں جلتے  رہے  شانے  میرے

میں ترے نام کا عامل ہوں، وہ اب جان گئے
حادثے اب نہیں ڈھونڈھیں گے ٹھکانے میرے

چاند سی ان کی وہ خوش رنگ قبا، وہ دستار
ان  کی  درویشی  پہ  قربان  خزانے  میرے

موج رنگ آئی کچھ اس طور کہ دل جھوم اٹھا
ہوش گم کر  دئے  سرمست  حنا نے  میرے

پھر کوئی لمس مرے جسم میں شعلے بھر دے
پھر سے  یوں ہو  کہ پلٹ آئیں زمانے میرے

جا، تجھے چھوڑ دیا اے غمِ دوراں میں نے
ورنہ خالی  نہیں جاتے  ہیں  نشانے  میرے

ایسا لگتا تھا کہ لوٹ آئے ہیں گزرے ہوئے دن
مل گئے تھے مجھے کچھ دوست پرانے میرے

زندگی! دیکھ لی میں نے تری دنیا، کہ جہاں
وقت  نے  چھین لیے  خواب سہانے  میرے

اب میں ساحل پہ نہیں، میں ہوں تہہِ آبِ رواں
شہر در شہر  ہیں  ہونٹوں  پہ فسانے  میرے

گر پڑا سیلِ حوادث  مرے  قدموں پہ  بشیر
ہاتھ  تھامے جو  بزرگوں کی  دعا نے  میرے

(بشیر فاروقی)

Tuesday 21 May 2019

دو سطری

‏مرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا
اگر خیال کو تیرا خیال آ جائے

Sunday 19 May 2019

احمد ندیم قاسمی

احمد ندیم قاسمی

گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں
کسی نے درد بھری لے میں ماہیا گایا
مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل
یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا

Tuesday 7 May 2019

نعیم ضرار

مِرے گُناہ اگرچہ نہیں ہیں کم لیکن
یہ کیا ہیں رحمتِ پَروَردِگار کے آگے۔۔۔!

نعیم ضرار

Sunday 5 May 2019

دوسطری

ﮐﻮﻥ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﻮ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ
ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺑﯿﺖ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

Saturday 4 May 2019

رحمان فارس

ھمدم نہ ھو تو کیا بھلا پینے کا فائدہ ؟
بیٹھا ھُوں کب سے چائے کی دو پیالیوں کے ساتھ

رحمان فارس

Monday 29 April 2019

دوسطری

غم ستائیں تو ترے لمس کا ترسا ہوا شخص
تیری تصویر سے گھبرا کے لپٹ جاتا ہے

عطا الحسن

Sunday 28 April 2019

رئیس فروغ

رئیس فروغ
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

Monday 22 April 2019

شان الحق حقی

چپ ہے وہ مہر بہ لب میں بھی رہوں اچھا ہے
ہلکا  ہلکا  یہ  محبت  کا  فسوں اچھا  ہے

موسمِ گل  نہ  سہی  شغلِ جنوں اچھا  ہے
ہمدمو !!  تیز  رہے  گردشِ  خوں، اچھا  ہے

تم بھی کرتے رہے تلقین سکوں کی خاطر
میں بھی آوارہ و  سرگشتہ رہوں اچھا ہے

وہ بھی کیا خون کہ ہو جبر کی بنیاد میں جذب
جو یوں ہی مفت میں بہہ جائے وہ خوں اچھا ہے

بات وہ آئی ہے لب پر کہ کہے بن نہ رہوں
عقل جامے سے ہو باہر  تو جنوں اچھا  ہے

گر بھٹکنے ہی کی ٹھانی ہے رفیقوں نے تو خیر
منہ سے کچھ کہہ نہ سکوں ساتھ تو دوں اچھا ہے

دل کا احوال کہ کچھ ذکرِ زمانہ چھیڑوں
بات یوں چھیڑنا اچھا ہے کہ، یوں اچھا ہے

میں نے کیا کیا نہ کہا شعر میں ان سے حقی
وہ فقط سن کے یہ کہتے رہے " ہوں اچھا ہے "

(شان الحق حقی)

Sunday 21 April 2019

رحمان فارس

🌹نذرِ جان ایلیا🌹

تُو میرے رُوکھے پن پر تلملا نئیں
مَیں جتنا بے مروّت اب ھُوں، تھا نئیں

خوشی بےحد سُہانی کیفیت ھے
مگر غم سے زیادہ دیرپا نئیں

مِرے اشکوں کو مت بہلائیں، جائیں
یہ میرا مسئلہ ھے، آپ کا نئیں

تو کیا تیرا نہیں ھے تیرا مُنکر ؟
تو کیا تُو اپنے مُنکر کا خُدا نئیں ؟

چلو مانا نہیں جَون ایلیا مَیں
مگر تُو بھی تو کوئی فارھہ نئیں

“محبت ھوگئی” کہنا غلط ھے
محبت زندگی ھے، واقعہ نئیں

مُجھے الزام مت دے، بنتِ حوّا !
مَیں آدم ھُوں، فرشتہ نئیں، خُدا نئیں

یہی ھے داستانِ وصلِ جاناں
کہ کچھ کچھ تو ھُوا، کچھ کچھ ھُوا نئیں

تکلّف چھوڑ فارس ! پاؤں پڑ جا
ابھی وہ جانے والا ھے، گیا نئیں

رحمان فارس

پیر نصیرالدین نصیر گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ

قیس و فرہاد کو یک گو نہ رہا مجھ سے خلوص
جب بھی دیکھا تو پکار اٹھے کہ استاد آیا

وہ بھی ملتا جو گلے سے تو خوشی عید کی تھی
کوئی رہ رہ کے نصیر آج بہت یاد آیا

Wednesday 17 April 2019

سرائیکی


ایویں قسماں نہ کھا ماہیا،
گھڑی وچ بَدل ویندیں،
کوئی کرے کیا وسا ماہیا،

سید شمس الدین گیلانی

Tuesday 16 April 2019

عرفان صدیقی

دل کا جو حال ہوا دشمنِ جانی کا نہ ہو
آخرِ شب کبھی آغاز کہانی کا نہ ہو

کون مانے گا کہ گزرے ہوئے موسم کیا تھے
جب قبا پر کوئی پیوند نشانی کا نہ ہو

عرفان صدیقی

احمد فراز

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا

وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا

وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا

چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا

یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا

ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا

Wednesday 3 April 2019

آزاد نظم

کئی دنوں سے
مجھے وہ میسج میں لکھ رہی تھی
جنابِ عالی
حضورِ والا
بس اِک منٹ مجھ سے بات کر لیں
میں اِک منٹ سے اگر تجاوز کروں
تو بے شک نہ کال سننا
میں زیرِ لب مُسکرا کے لکھتا
بہت بزی ہوں
ابھی نئی نظم ہو رہی ہے
وہ اگلے میسج میں پھر یہ لکھتی
سسکتی روتی بلکتی نظموں کے عمدہ شاعر
تم اپنی نظمیں تراشو لیکن
کبھی تو میری طرف بھی دیکھو
کبھی تو مجھ سے بھی بات کر لو
بس اِک منٹ میری بات سُن لو
میں ہنس کے لکھتا
فضول لڑکی
بہت بزی ہوں
بس اِک منٹ ہی تو ہے نہیں ناں
وہ کئی دنوں تک خموش رہتی
پھر ایک دن میں نے اُس کی حالت پہ رحم کھا کر
جواب لکھا
بس اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ سے زیادہ بالکل نہیں سنوں گا
تو اس نے اوکے لکھا اور اِک دم سے کال کر دی
میں کال پِک کر کے چُپ کھڑا تھا
وہ گہرا لمبا سا سانس لے کر
اُداس لہجے میں بولی سر جی
میں جانتی ہوں کہ اِک منٹ ہے
اور اِک منٹ میں
میں اپنے اندر کی ساری باتیں کسی بھی صورت نہ کہہ سکوں گی
سلگتی ہجرت زدہ رُتوں کو اُداس نظموں میں لکھنے والے
عظیم شاعر
خُدا کی دھرتی پہ رہنے والے
اُداس لوگوں کا دُکھ بھی لکھنا
کبھی محبت میں جلتے لوگوں کا دُکھ سمجھنا
کبھی کسی نظم میں بتانا جنہیں تمہاری رفاقتیں ہی کبھی میسر نہیں ہوئی ہیں
جنہیں تمہاری محبتیں ہی کھبی میسر نہیں ہوئی ہیں
کبھی جو محرومیوں کے موسم بہت ستائیں تو کیا کریں وہ
کبھی جو تنہائیوں کی شامیں بہت رُلائیں تو کیا کریں وہ
ابھی تو آدھا منٹ پڑا تھا
مگر وہ لائن سے ہٹ چکی تھی
وہ اِک منٹ کی جو کال تھی ناں
وہ تیس سیکنڈ میں کٹ چکی تھی
میں کتنے برسوں سے اگلا آدھا منٹ گزرنے کا منتظر ہوں
وہ نرم لیکن اُداس لہجے میں بات کرتی
اُداس لڑکی مِری سماعت کے
اَدھ کھلے دَر سے یونہی اب تک لگی ہوئی  ہے
ہٹی نہیں ہے
بہت سے سالوں سے چل رہی ہے
وہ کال اب تک کٹی نہیں ہے

Tuesday 2 April 2019

دوسطری

شعر کہنے میں اِک خرابی ہے
لوگ آہوں پہ واہ کرتے ہیں

Saturday 30 March 2019

دوسطری

عالم میں اب تلک بھی مذکور ہے ہمارا
افسانہ محبت مشہور ہے ہمارا

Monday 25 March 2019

امجد اسلام امجد

اب  تک  نہ  کُھل  سکا  کہ مرے رُوبَرُو ہے کَون
کِس   سے   مَکالَمَہ   ہے   پسِ  گُفتگُو   ہے  کَون

سایہ   اگر   ہے   وہ  تو  ہے  اُس  کا  بَدن  کہاں
مَرکز  اگر  ہُوں  میں  تو  مرے چار سُو ہے کَون

ہر  شے  کی  ماہِیَّت  پہ  جو  کرتا  ہے  تُو سوال
تُجھ  سے  اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تُو ہے کون

اَشّکوں  میں  جِھلمِلاتا  ہوا  کس  کا  عَکس  ہے
تاروں   کی   رَہگُزر   میں   یہ  ماہ  رو  ہے  کَون

باہر  کبھی  تو  جھانک  کے کھڑکی سے دیکھتے
کس   کو   پکارتا   ہوا   یہ  کو  بہ  کو  ہے  کَون

آنکھوں   میں   رات  آ   گئی   لیکِن  نہیں  کُھلا
میں  کِس  کا  مدّعا ہوں؟ مری جُستُجُو ہے کَون

کِس   کی   نگاہِ   لُطف  نے   موسم   بدل  دئیے
فصلِ  خزاں  کی  راہ  میں  یہ  مُشکبو  ہے کَون

بادَل  کی  اوٹ  سے  کبھی  تاروں  کی  آڑ  سے
چُھپ چُھپ کے دیکھتا ہوا یہ حیلہ جُو ہے کَون

تارے  ہیں  آسماں  میں  جیسے  زمیں  پہ  لوگ
ہر  چند  ایک  سے   ہیں  مگر  ہُو  بَہُو  ہے  کَون

ہونا   تو   چاہیے   کہ   یہ   میرا  ہی  عَکس  ہو
لیکِن   یہ   آئینے   میں   مرے   رُوبَرُو  ہے  کَون

اس   بے    کنار    پھیلی    ہوئی   کائنات   میں
کِس  کو  خبر ہے  کَون ہُوں میں! اور تُو ہے کَون

سارا   فَساد   بڑھتی   ہوئی   خواہِشوں   کا  ہے
دل  سے  بڑا  جہان   میں  امجدؔ  عدُو  ہے  کَون

امجد اسلام امجدؔ

Wednesday 13 March 2019

نامعلوم

‏ہم کسی کام کے نہیں ورنہ
وہ کسی کام سے  ہی آ جاتا

Tuesday 12 March 2019

عابی مکھنوی

پتھر سارے زنداں کی دیوار میں چُن کر حاکم نے !
پاگل کُتے چھوڑ رکھے ہیں ہم سب کی رکھوالی کو
۔۔۔۔
عابی مکھنوی

Saturday 2 February 2019

رحمان فارس

چلا تو آیا ھُوں مَیں، آگے جو مِری قسمت
وہ در مرے لیے وا ھو نہ ھو، مِری قسمت

تُمہیں بسایا تھا دل میں، تُم آستیں میں رھے
تمہارا دوش نہیں دوستو ! مِری قسمت

اگر مَیں شہد خریدُوں تو کڑوا نکلے گا
تُم اتنی بات سے ھی جان لو مِری قسمت

تھمائی کاتبِ تقدیر کو لہُو کی دوات
پھر اُس سے مَیں نے کہا: اب لکھو مِری قسمت

تُو لکھ کے لایا تھا سکّے کے دونوں رُخ مری ھار
مَیں پھر بھی جیت گیا یار تو مِری قسمت

وہ شخص آیا نہیں، آنکھیں مُند گئیں میری
عزیزو ! دوستو ! نوحہ گرو ! مِری قسمت

مرا بھی مُلکِ محبت پہ راج ھو فارس
اگر جناب کی قسمت سی ھو مِری قسمت

رحمان فارس

Sunday 27 January 2019

اتباف ابرک

اپنے ہو کر بھی جو نہیں ملتے
دل یہ جا کر ہیں کیوں وہیں ملتے

یہاں ملتی نہیں ہیں تعبیریں
ہاں مگر خواب ہیں حسیں ملتے

ہم کو مانگا نہیں گیا دل سے
کیسے ممکن تھا ہم نہیں ملتے

یونہی بے کار ہر تلاش گئی
وہ نہیں تو چلو، ہمیں ملتے

یہ قیامت تو بس دلاسہ ہے
ملنا ہوتا انہیں یہیں ملتے

لازماً سب قصور میرا ہے
لوگ تو سب ہیں بہتریں ملتے

روز اپنے سے اعتبار اٹھے
روز وعدے ہیں پُر یقیں ملتے

توبہ کتنی سمٹ گئی دنیا
ایک گھر کے نہیں مکیں ملتے

کاہے تکتی ہے آسمانوں کو
چاند تارے نہیں زمیں ملتے

سارے قصے میں وہ رہے میرے
اب ہے انجام تو نہیں ملتے

تم سے ملتے گلی گلی ، ابرک
ہم سے جوہر کہیں کہیں ملتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک

نامعلوم

آپ کو کیا خبر محبت کی
ہونے والوں کو ہو گئی ہو گی

عشق پانی پہ چل رہا ہو گا
عقل کشتی بنا رہی ہو گی

تہذیب حافی

‎بڑا پُر فریب ہے شہد و شِیر کا ذائقہ
‎مگر ان لبوں سے ترا نمک تو نہیں گیا

‎یہ جو اتنے پیار سے دیکھتا ہے تُو آج کل
‎مرے دوست تُو کہیں مجھ سے تھک تو نہیں گیا

حافی

دوسطری

‏جانے کس وقت اچانک اُسے یاد آ جائے..!!
میں نے یہ سوچ کےنمبر نہیں بدلا اپنا..!!

(عادل لکھنوی)

Wednesday 23 January 2019

افتخار عارف

خوابِ دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہرِ دل آزار کے لوگ
موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہلِ دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبانِ دلِ شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اُڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اوّلِ صبح کے غم آخرِ شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اُٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور، یہی مہر بلب، بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرمِ مسند و منبر کہ اب اربابِ حَکَم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیِ رب پوچھتے ہیں

Friday 18 January 2019

عائشہ ایوب

جھکتی پلکوں کی احتیاط سمجھ
خامشی کر رہی ہے بات سمجھ

اک جھلک جس نے دیکھنا ہے تجھے
اُس کی آنکھوں کی مشکلات سمجھ

عائشہ ایوب

Wednesday 16 January 2019

اظہر ناظر

میں پرستِش کی حد سے لوٹا ہُوں
اب مُحبّت __ فضُول لگتی ہے
.....
وہ مانگتا ہے مجھ سے چاہت کے ثبوت اب بھی
اب تک کی پرستش کو وہ خاطر میں نہیں لاتا

(اظہر ناظؔر)

Friday 11 January 2019

فرحت عباس شاہ

کم تو پہلے بھی نہیں تھا مگر اے بِچھڑے ہُوئے
بڑھ گیا اور تِرے غم کا اثر بارش میں۔۔۔!

فرحتؔ عبّاس شاہ

احمد فراز

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا

اے میرے ابر گریزاں مری آنکھوں کی طرح
گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا

آج تک یاد ہے اظہار محبت کا وہ پل
کہ مری بات کی لکنت پہ وہ ہنستا جاتا

اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا

احمد فراز

جمال احسانی

قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا
جمال احسانی

شاکر شجاع آبادی

جے تنگ ہوویں ساڈی ذات کولوں
تے صاف دسیں تیڈی جان چھٹے

رب توں منگی ضائع نئی تھیندی
منگ ڈیکھ دعا تیڈی جان چھٹے

تیکو پیار کیتا تیڈا مجرم ہاں
ڈے سخت سزا تیڈی جان چھٹے

ایویں مار نہ شاکِر قسطاں وچ
یک مُشت مُکا تیڈی جان چھٹے

جامی

قصّۂ سوزِ دلِ پروانہ را از شمع پُرس
شرحِ ایں آتش نداند جز زبانے سوختہ

مولانا عبدالرحمٰن جامی

پروانے کے سوزِ دل کا قصہ شمع سے پُوچھ کہ اِس آگ (اور جلنے) کی شرح کسی جلے ہوئے کی زبان کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا۔