AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Monday 30 October 2017

عرفان ستار

گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں

جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں

تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں

کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں

جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں

اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں

بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں

اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں

میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں

نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ  زندگی تو  ہے مگر. مرے  مزاج  کی نہیں

ترا  سلوک  مجھ کو  یہ بتا  رہا  ہے  آج  کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں

کوئی تو  شعر ہو  وفور و کیفیت  میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں

تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں

قبائے  حُسن سے  اُدھر بلا  کا اک  طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں

تمام زاویوں  سے  بات کر چکا،  تو پھر کھُلا
یہ  عشق  وارداتِ قلب  ہے  جو  گفتنی نہیں

کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ  التفات  جھیلنے. کی  تاب  ہی  نہیں

کسی کا ذکر کیا مجھے تو خود سے بھی گریز ہے
میں کیا کروں کہ مجھ میں خوئے خودسپردگی نہیں

ہجومِ بد  کلام  جا  رہا  ہے  دوسری  طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں

مری  غزل پہ  داد دے رہے ہو،  تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں

مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پُرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں

سنو  بغور یہ غزل، کہ  پھر بہت  سکوت ہے
اگرچہ  لگ رہا ہے  یہ غزل  بھی آخری نہیں

(عرفان ستار)

Thursday 26 October 2017

داغ دہلوی

آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا؟
بوسے لینے کے لیئے کعبے میں پتھر رکھ دیا

ہم نے اُن کے سامنے اوّل تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا

سُن لیا ہے پاس حوروں کے پُہنچتے ہیں شہید 
اس لیئے لاشے پہ میرے اُس نے پتھر رکھ دیا

کل چھڑا لیں گے یہ، زاہد، آج تو ساقی کے ہاتھ
رہن اک چلّو پہ ہم نے حوض کوثر رکھ دیا

ذبح کرتے ہی مجھے، قاتل نے دھوئے اپنے ہاتھ
اور خون آلودہ خنجر غیر کے گھر رکھ دیا

زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا

زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟

داغ کی شامت جو آئی اضطرابِ شوق میں
حالِ دل کمبخت نے سب اُن کے منہ پر رکھ دیا​

نعت

تنم فرسودہ جاں پارہ ، ز ہجراں ، یا رسول اللہ ﷺ
دِلم پژمردہ آوارہ ، زِ عصیاں ، یا رسول اللہ ﷺ
یا رسول اللہ ﷺ آپ کی جدائی میں میرا جسم بے کار اور جاں پارہ پارہ ہو گئی ہے
گناہوں کی وجہ سے دل نیم مردہ اور آورہ ہو گیا ہے
چوں سوئے من گذر آری ، منِ مسکیں زِ ناداری
فدائے نقشِ نعلینت ، کنم جاں ، یا رسول اللہ ﷺ
یا رسول اللہ ﷺ اگر کبھی آپ میرے جانب قدم رنجہ فرمائیں تو میں غریب و ناتواں
آپ ﷺ کی جوتیوں کے نشان پر جان قربان کر دوں
زِ کردہ خویش حیرانم ، سیہ شُد روزِ عصیانم
پشیمانم، پشیمانم ، پشیماں ، یا رسول اللہ ﷺ
میں اپنے کیے پر حیران ہوں اور گناہوں سے سیاہ ہو چکا ہوں
پشیمانی اور شرمند گی سے پانی پانی ہو رہا ہوں ،یا رسول اللہ ﷺ
چوں بازوئے شفاعت را ، کُشائی بر گنہ گاراں
مکُن محروم جامی را ، درا آں ، یا رسول اللہ ﷺ
روز محشر جب آپ ﷺ شفاعت کا بازو گناہ گاروں کے لیے کھولیں گے
یا رسول اللہ ﷺ اُس وقت جامی کو محروم نہ رکھیے گا
مولانا عبدالرحمن جامی

Wednesday 25 October 2017

قتیل شفائی

ﺟﺐ ﺗﺼﻮﺭ ﻣﺮﺍ ﭼُﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﭼﮭُﻮ ﺁﺋﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺮ ﺳﺎﻧﺲ ﺳﮯ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗِﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁﺋﮯ

ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺍﺏ ﮨﮯ ﻣﺮﺍ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﻮ ﺗﮑﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ
ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﭼﯿﻦ ﻧﮧ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﭘﮩﻠﻮ ﺁﺋﮯ

ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮯ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺑﺎﻗﯽ
ﺟﮭﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﮑﺲ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮ، ﻧﻈﺮ ﺗﻮ ﺁﺋﮯ

ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﺩﺵِ ﺩﻭﺭﺍﮞ ﻧﮯ ﺳﺘﺎﯾﺎ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺯﻭ ﺁﺋﮯ

ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺷﺐِ ﮨﺠﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺭﻭﺷﻦ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﺗِﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟﮕﻨﻮ ﺁﺋﮯ

ﮐﺘﻨﺎ ﺣﺴﺎﺱ ﻣﺮﯼ ﺁﺱ ﮐﺎ ﺳﻨّﺎﭨﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺧﻤﻮﺷﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﮯ ﮔﮭﻨﮕﺮﻭ ﺁﺋﮯ

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺳﺮِﺷﺎﻡ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﯾﮧ ﺳﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﺳﮯ ﭼﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﺐِ ﺟﻮ ﺁﺋﮯ

ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﺗﻮ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﻗﺘﯿﻞؔ
ﻭﮦ ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺩﻭ ﺁﺋﮯ

قتیلؔ شفائی

پنجابی شاعری

‏پہلے عِشقا عِشقا کردا سی، ہُن کِن مِن کِن مِن روندا اے
کوئی وکھرا عاشق نئیں جمدا اِنج کرئیے تے اِنج ہوندا اے

Tuesday 24 October 2017

شکیب جلالی

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں

چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں

دھوکے سے اس حسیں کو اگر چوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لبوں کی مٹھاس میں

تارہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابان یاس میں

جوئے روان دشت ابھی سوکھنا نہیں
ساون ہے دور اور وہی شدت ہے پیاس میں

رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں

کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں​

قمر جلالوی

عزیز گھر سے جو میّت میری اُٹھا کے چلے
اِشارے غیر سے اُس دُشمنِ وفا کے چلے
دِکھا کے میرے جنازے کو مُسکُرا کے کہا
بُتوں نے بات نہ پُوچھی تو اب خُدا کے چلے۔۔۔!

Monday 23 October 2017

قمر جلالوی

حسن کب عشق کا ممنون وفا ہوتا ہے
قمر جلالوی
حسن کب عشق کا ممنون وفا ہوتا ہے
لاکھ پروانہ مرے شمع پہ کیا ہوتا ہے
شغل صیاد یہی صبح و مسا ہوتا ہے
قید ہوتا ہے کوئی کوئی رہا ہوتا ہے
جب پتا چلتا ہے خوشبو کی وفاداری کا
پھول جس وقت گلستاں سے جدا ہوتا ہے
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا
شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمرؔ جلوہ نما ہوتا ہے

Sunday 22 October 2017

نخشب جارچوی

وعدے کا اعتبار تو ہے واقعی مجھے
یہ اور بات ہے کہ ہنسی آ گئی مجھے

لائی ہے کس مقام پہ وارفتگی مجھے
محسوس ہو رہی ہے اب اپنی کمی مجھے

سمجھے ہیں وہ جنوں تو جنوں ہی سہی مجھے
دانستہ اب بدلنی پڑی زندگی مجھے

جلووں کی روشنی میں جو کھویا تھا پا گیا
تم سے نظر ملی تو محبت ملی مجھے

ماحول سازگار مزاج وفا نہ تھا
دنیا سے بچ کے ان کی نظر دیکھتی مجھے

یوں ربط و ضبط شوق بڑھایا بہ طرز نو
جیسے کہ پہلے ان سے محبت نہ تھی مجھے

نخشبؔ مٹایا جس نے وفاؤں کی آڑ میں
اس بے وفا سے پھر بھی محبت رہی مجھے

نخشبؔ جارچوی

اختر الایمان

" آخری ملاقات "

آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم
آتی نہیں کہیں سے دلِ زندہ کی صدا
سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے
ہے شمعِ انجمن کا نیا حسنِ جاں گداز
شاید نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے
تازہ نہ رہ سکیں گی روایاتِ دشت و در
وہ فتنہ سر گئے جنہیں کانٹے عزیز تھے

اب کچھ نہیں تو نیند سے آنکھیں جلائیں ہم
آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم

سوچا نہ تھا کہ آئے گا یہ دن بھی پھر کبھی
اک بار پھر ملے ہیں، ذرا مسکرا تو لیں
کیا جانے اب نہ الفتِ دیرینہ یاد آئے
اس حسنِ اختیار پہ آنکھیں جھکا تو لیں
برسا لبوں سے پھول تری عمر ہو دراز
سنبھلے ہوئے تو ہیں پہ ذرا ڈگمگا تو لیں

اور اپنا اپنا عہدِ وفا بھول جائیں ہم
آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم

برسوں کی بات ہے کہ مرے جی میں آئی تھی
میں سوچتا تھا تجھ سے کہوں، چھوڑ کیا کہوں
اب کون ان شکستہ مزاروں کی بات لائے
ماضی پہ اپنے حال کو ترجیح کیوں نہ دوں
ماتم خزاں کا ہو کہ بہاروں کا، ایک ہے
شاید نہ پھر ملے تری آنکھوں کا یہ فسوں

جو شمعِ انتظار جلی تھی بجھائیں ہم
آؤ کہ جشنِ مرگِ محبت منائیں ہم

(اختر الایمان)

Saturday 21 October 2017

طاہر فراز

بہت خوبصورت ہو تم (طاہر فراز)

کبھی میں جو کہدوں محبت ہےتم سے
تو مجھکو خدارا غلط مت سمجھنا
کہ میری ضرورت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم

ہیں پھولوں کی ڈالی یہ باہیں تمہاری
ہیں خاموش جادو نگاہیں تمہاری

جو کانٹیں ہوں سب اپنے دامن میں رکھ لوں
سجاؤوں میں کلیوں سے راہیں تمہاری
نظر سے زمانے کی خود کو بچانا
کسی اور سے دیکھو دل نا لگانا

کہ میری امانت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم

کبھی جگنؤوں کی قطاروں میں ڈھونڈا
چمکتے ہوئے چاند تاروں میں ڈھونڈا
خزاؤوں میں ڈھونڈا بہاروں میں ڈھونڈا
مچلتے ہوئے آبشاروں میں ڈھونڈا

حقیقت میں دیکھا فسانے میں دیکھا
نہ تم سا حسیں إس زمانے میں دیکھا
نہ دنیا کی رنگین محفل پایا
جو پایا تمہیں اپنے ہی دل میں پایا

اک ایسی مسرت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم

ہے چہرہ تمہارا کہ دن ہے سنہرا
اور اس پر یہ کالی گھٹاؤوں کا پہرا
گلابوں سے نازک مہکتا بدن ہے
یہ لب ہیں تمہارے کہ کھلتا چمن ہے

بکھیرو جو زلفیں تو شرمائے بادل
یہ زاہد بھی دیکھے تو ہو جائے پاگل

وہ پاکیزہ مورت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم

جو بن کے کلی مسکراتی ہے اکثر
شب ہجر میں جو رلاتی ہے اکثر

جو لمحوں ہی لمحوں میں دنیا بدل دے
جو شاعر کو دے جائے پہلو غزل کے
چھپانا جو چاہیں چھپائ نہ جائے
بھلانا جو چاہیں بھلائ نہ جائے

وہ پہلی محبت ہو تم
بہت خوبصورت ہو تم

طاہر فراز

Friday 20 October 2017

راحت اندوری

ہاتھ خالی ہیں تِرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی، تو مِری جان! لُٹاتے جاتے

اب تو ہر ہاتھ کا پتّھر ہَمَیں پہچانتا ہے
عُمر گذری ہے تِرے شہر میں آتے جاتے

رینگنے کی بھی اِجازت نہیں ہم کو، ورنہ !
ہم جِدھر جاتے، نئے پُھول کِھلاتے جاتے

مجھ میں رونے کا سلیقہ بھی نہیں ہے شاید
لوگ ہنستے ہیں مجھے دیکھ کے آتے جاتے

اب کہ مایُوس ہُوا یاروں کو رُخصت کر کے
جا رہے تھے ، تو کوئی زخم لگاتے جاتے

ہم سے پہلے بھی مُسافر کئی گزرے ہونگے
کم سے کم، راہ کا پتّھر تو ہٹاتے جاتے

Thursday 19 October 2017

بیدل حیدری

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی
ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

بیدل حیدری

Tuesday 17 October 2017

قتیل شفائی

رقص کرنے کا ملا حکم جو دریاؤں میں
ہم نے خوش ہو کے بھنور باندھ لئے پاؤں میں

ان کو بھی ہے کسی بھیگے ہوئے منظر کی تلاش
بوند تک بو نہ سکے جو کبھی صحراؤں میں

اے میرے ہمسفرو تم بھی تھکے ہارے ہو
دھوپ کی تم تو ملاوٹ نہ کرو چھاؤں میں

جو بھی آتا ہے بتاتا ہے نیا کوئی علاج
بٹ نہ جائے ترا بیمار مسیحاؤں میں

حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں

وہ خدا ہے کسی ٹوٹے ہوئے دل میں ہو گا
مسجدوں میں اسے ڈھونڈو نہ کلیساؤں میں

ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں

مجھ سے کرتے ہیں قتیلؔ اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں مرے شعر ہیں مقبول حسیناؤں میں

قتیل شفائی

عرفان ستار

میں گفتگو کا نہیں سوچنے کا عادی ہوں
سو میں نے عشق بھی تجھ ایسے کم سخن سے کیا

فارسی

میان عاشق و معشوق رمزیست--
کراما کاتبیں را ہم خبر نیست-- 

ترجمہ:
عاشق اور معشوق کے درمیان ایک ایسا (قلبی) تعلق ہوتا ہے جس کی کراما کاتبین کو بھی خبر نہیں ہوتی

Sunday 15 October 2017

حفیظ بنارسی

جب تصوّر میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے
رات ہوتی ہے مگر دن کا یقیں ہوتا ہے

اُف وہ بیداد! عنایت بھی تصدّق جس پر
ہائے وہ غم! جو مسرّت سے حسیں ہوتا ہے

ہجر کی رات فسوں کارئ ظلمت مت پوچھ!
شمّع جلتی ہے مگر نُور نہیں ہوتا ہے

عشق میں معرکہْ قلب و نظر کیا کہئے
چوٹ لگتی ہے کہیں، درد کہیں ہوتا ہے

ہم نے دیکھے ہیں وہ عالم بھی محبّت میں حفیظؔ
آستاں خود جہاں مشتاقِ جبیں ہوتا ہے

حفیظؔ بنارسی

احمد فراز

یَہی ناصِح جو ہَمیں تُجھ سے نہ مِلنے کو کَہَیں،
تُجھ کو دیکھیں تو تُجھے دیکھنے آنے لَگ جائیں،

ہَم کہ ہیں لَذَّتِ آزار کے مارے ہُوئے لوگ،
چارَہ گَر آئیں تو زَخموں کو چھُپانے لَگ جائیں،

قُرب اَچھّا ہے مَگَر اِتنی بھی شِدَّت سے نہ مِل،
یہ نہ ہو تُجھ کو میرے روگ پُرانے لَگ جائیں،

احمد فراز

Saturday 14 October 2017

احمد فراز

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو

کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو

مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں

ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو

میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی

میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو

ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے

یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو

فضا اداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں

جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو

فرازؔ تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا

زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو

امیر مینائی

سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
شبِ فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو
کہیں فرصت میں کر لینا حساب آہستہ آہستہ
سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
ہمارے اور تمہارے پیار میں بس فرق ہے اتنا
اِدھر تو جلدی جلدی ہے اُدھر آہستہ آہستہ
وہ بے دردی سے سر کاٹے امیر اور میں کہوں ان سے
حضور آہستہ آہستہ جناب آہستہ آہستہ

Friday 13 October 2017

کلیم عاجز

ﺑﯿﺎﮞ ﺟﺐ ﮐﻠﯿﻢؔ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ
ﻏﺰﻝ ﮐﯿﺎ ﭘﮍﮬﮯ ﮨﮯ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﺑﮭﻼ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ ﭘﮧ ﻧﺎﺩﺍﮞ ﻧﮑﻼ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﮐﺒﮭﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺮﻧﯽ ﻧﮧ ﺁﺗﯽ
ﺍﺳﯽ ﺑﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﭼﮭﺮﯼ ﭘﺮ ﭼﮭﺮﯼ ﮐﮭﺎﺋﮯﺟﺎﺋﮯ ﮨﮯ ﮐﺐ ﺳﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺟﺌﮯ ﮨﮯ ﮐﺮﺍﻣﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﮐﺮﮮ ﮨﮯ ﻋﺪﺍﻭﺕ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺍﺩﺍ ﺳﮯ
ﻟﮕﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﯾﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﺟﻮﮨﺮ ﺍﮎ ﻃﺮﻑ ﺍﭨﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

ﻗﺒﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﺎﮎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﺟﻨﻮﮞ ﮐﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ

کلیمؔ عاجز

عزم بہزاد

(عزم بہزاد)
وسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا
صرف آواز کہاں تک مجھے جاری رکھتی
میں نے چپ سادھ لی، سناٹے کو عادت لکھا
لکھنے والوں نے تو ہونے کا سبب لکھا ہے
میں نے ہونے کو نہ ہونے کی وضاحت لکھا
زخم لکھنے کے لیے میں نے لکھی ہے غفلت
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا
میں نے پرواز لکھی حدِ فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا
یہ سفر پاؤں ہلانے کا نہیں، آنکھ کا ہے
میں نے اِس باب میں رکنے کو مسافت لکھا
اتنے دعووں سے گزر کر یہ خیال آتا ہے
عزمؔ کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا

Thursday 12 October 2017

نصیرالدین نصیر

بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے
تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے

نہ واعظ سے کوئی رشتہ، نہ زاہد سے شناسائی
اگر ملتے نے رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے

خدا کا شکر ، شمعِ رُخ لیے آئے وہ محفل میں
جو پردے میں چُھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے

اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی
کسی بے کس کی میّت لوگ دفنانے کہاں جاتے

اگر کچھ اور بھی گردش میں رہتے دیدہِ ساقی
نہیں معلوم چکّر کھا کے میخانے کہاں جاتے

خدا آباد رکّھے سلسلہ اِس تیری نسبت کا
وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے

نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا اُن کا ہمیں ، ورنہ
کہاں رُکتے ، کہاں تھمتے ، خدا جانے کہاں جاتے​

ظفر اقبال

اسی زرد پھول کی بد دعا ہے، ظفر یہ دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پس نقاب کھلا ہوا

Wednesday 11 October 2017

عرفان ستار

تیرے لہجے سے تیرا جہلِ دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی  ہے تو کیوں  بولتا ہے

عرفان ستار

Tuesday 10 October 2017

بہادر شاہ ظفر


ٹکڑے نہیں جگر کے ہیں اشکوں کے تا ر میں
یہ لعل موتیوں کے پروئے ہیں ہار میں

قطرے نہیں پسینہ کے ہیں زلفِ یار میں
دُرّانی آگئے ہیں یہ مُلکِ تَتار میں

سُرمہ نہیں لگا ہوا مژگانِ یار میں
ہے زنگ سا لگا ہوا خنجر کی دھار میں

ساقی شتاب دے مجھے تو بھر کے جامِ مے
بیٹھا ہوں بے حواس نشہ کے اُتار میں

ہم حُسنِ گندمی پہ ترے ہو کے شیفتہ
کیا کیا ذلیل و خوار ہیں قرب و جوار میں

بعد از فنا بھی کم نہ ہوئی سوزشِ جگر
گرمی ہے اب تلک مرے خاکِ مزار میں

سایہ میں زلف کے ہے کہاں روئے تابناک
ہے چاند سا چھپا ہوا ابر بہار میں

مثلِ غبار اُٹھ کے جو تیری گلی سے جائے
طاقت کہا ں ہے اتنی ترے خاکسار میں

اُس ر شکِ گل کو اب تو دیا ہم نے دل ظفرؔ
کہہ دیں گے ہم زبان سے سو میں ہزار میں

نوح ناروی

اچھی کہی کہ قدر محبت کریں گے ہم
دھوکہ تم اس کو دو جو تمہیں جانتا نہ ہو

نوح ناروی

Monday 9 October 2017

عرفان صدیقی

میرے ہونے میں کسی طور شامل ہو جاو
تم مسیحا نہیں ہوتے تو۔۔۔ قاتل ہو جاو

وہ ستم گر ، تمہیں تسخیر کیا چاہتا ھے
خاک بن جاو اور اس شخص کو حاصل ہو جاو

ابھی پیکر ہی جلا ھے تو یہ عالم ھے میاں !
اگر یہ روح میں لگ جائے تو ۔۔۔کامل ہو جاو

عرفان صدیقی ۔۔۔۔!!

وارث کرمانی

قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے
ملے یہ جام انہی انکھڑیوں میں ڈھل کے مجھے

میں اپنے دل کے سمندر سے تشنہ کام آیا
پکارتی رہیں موجیں اچھل اچھل کے مجھے

نگاہ  جس  کے لیے  بے  قرار  رہتی  تھی
سزا ملی ہے اسے روشنی سے جل کے مجھے

میں رہزنوں کو کہیں اور دیکھتا  ہی رہا
کسی نے لوٹ لیا پاس سے نکل کے مجھے

کہاں نجوم، کہاں راستے  کی گردِ حقیر
عجیب وہم ہوا تیرے ساتھ چل کے مجھے

اب ایک سایہِ بے خانماں بھی ساتھ میں ہے
یہ کیا ملا ہے ترے شہر سے نکل کے مجھے

وہی  حقیقتِ  عمرِ  دراز  بن  کے  رہے
کسی نے خواب دیے تھے جو چند پل کے مجھے

کوئی بھی  جب ہدفِ خنجرِ  ادا نہ ملا
وہ دشتِ غم سے اٹھا لے گئے مچل کے مجھے

وارث کرمانی

امجد اسلام امجد

ﺗﺮﮎِ ﺍُﻟﻔﺖ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﭼﺎﮨﮯ
ﻭﮦ ﻣُﺠﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮧ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ

ﺁﺱ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺁﮒ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ

ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻐﺎﻓﻞ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ
ﺁﺭﺯﻭ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﭼﺎﮨﮯ

ﻭﻗﺖ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﻟَﻮﭦ ﺑﮭﯽ ﺁﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﺁﮨﭧ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﺳﺎﯾﮧ ﺗﮭﺎ
ﺩﻝ ﺗﻮ ﺭُﮐﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﭼﺎﮨﮯ

ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﺳﺘﮯ ﮐﯽ ﺳﺮﺍﺋﮯ ﮨُﻮﮞ ﺟِﺴﮯ
ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ

ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺍﺫّﯾﺖ ﻃﻠﺒﯽ
ﭘﮭﺮ ﺍُﺳﯽ ﺷﮩﺮ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ

ﺍﻣﺠﺪ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺠﺪؔ

Sunday 8 October 2017

بلا عنوان

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ؟
ﺟﺎﺅ !!_____
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻄﻠﺐ
ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺍُﻟﻔﺖ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺭﺩِ ﺳﺮ ﮨﮯ،
ﺩﺭﺩِ ﺩِﻝ ﮨﮯ ،
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ،
ﺟﺎﺅ !!____
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺗﮭﺎ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ،
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮﮞ
ﯾﺎ ﺑﮭُﻼ ﮈﺍﻟﻮﮞ ...
ﻋﺠﺐ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﯽ،
ﻋﺠﺐ ﺭﺳﻤﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍُﻟﻔﺖ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﺗﻮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﻧﺒﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﺩِﻥ ﭼﮭﻮﮌ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ،
ﺑﺘﺎﻧﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳُﻨﻨﺎ،
ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﺘﻼﺅ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﻣﺸﻮﺭﮮ ﻣﺖ ﺩﻭ .....
ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﯿﻨﺎ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﮔُﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ،
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﺘﻼﺅ
ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺅ
ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺅ
ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺅﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﺎ؟
ﺟﺎﺅ !!_____
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻄﻠﺐ
ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺍُﻟﻔﺖ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺭﺩِ ﺳﺮ ﮨﮯ،
ﺩﺭﺩِ ﺩِﻝ ﮨﮯ ،
ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ،
ﺟﺎﺅ !!____
ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺗﮭﺎ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ،
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮﮞ
ﯾﺎ ﺑﮭُﻼ ﮈﺍﻟﻮﮞ ...

میر تقی میر

ﻣﻮﺳﻢ ﮨﮯ، ﻧﮑﻠﮯ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺘّﮯ ﮨﺮﮮ ﮨﺮﮮ
ﭘﻮﺩﮮ ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﮭﺮﮮ

ﺁﮔﮯ ﮐﺴﻮ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﺩﺳﺖِ ﻃﻤﻊ ﺩﺭﺍﺯ
ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺩﮬﺮﮮ ﺩﮬﺮﮮ

ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﮯ، ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺭتبہِ ﻋﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﺍﮨﻞِ ﺧﺎﮎ
ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﮞ ﺳﭙﮩﺮ ﺑﮩﺖ ﮨﻢ ﻭﺭﮮ ﻭﺭﮮ

ﻣﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ، ﺑﺎﺯ ﺭﮐﮭﺎ ﻣﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﮮ ﮨﮯ ﺍﺭﮮ ﺍﺭﮮ

ﮔﻠﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﮒ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺭﻧﮓ ﮔُﻞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮٓ
ﺑﻠﺒﻞ ﭘﮑﺎﺭﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ، ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺮﮮ ﭘﺮﮮ

ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮؔ

ن م راشد

کس پہ الزام محبت کا لگایا جائے
خود ہوں ماخوذ اگر ان کو بچایا جائے

کون کہرام میں سنتا ہے شکست دل
نقش آواز کا ماتھے پہ سجایا جائے

برف کی سل بھی تو حدت سے پگھل جاتی ہے
کیوں نہ اس شخص کو سینے سے لگایا جائے

تجھ سے بچھڑے ہیں تو قیامت نہیں ٹوٹی ہے
اک ذرا بات پہ کیوں حشر اٹھایا جائےذ

۔ن۔م۔راشد ۔۔۔!!!

Saturday 7 October 2017

ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﻣﻠﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮫ
ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﯿﺴـﺎ ﮨـﻮﺗﺎ ﮨـﮯ ﮐﺴﯽ ﺷـﺨﺺ ﮐﺎ ﭘﺘﮭﺮ
ﮨـﻮﻧـﺎ

Wednesday 4 October 2017

ھﻤﺎﺭﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﯾﮧ ھﮯ مذاق ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﺮﯾﮟ ؟؟
ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﻮ ﺍﺏ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ھﮯ

”‏ﻧﺪﯾﻢ ﺑﮭﺎبھہ“

Monday 2 October 2017

عدیم ہاشمی

تم سے بہتر کون ہے ساتھی تمہارا دوسرا​
ڈُھونڈتے ہو کِس لیے کوئی سہارا دوسرا​

تب کہیں سمجھا ہوں میں اُس کا اشارہ دوسرا​
اُس نے میرے ہاتھ پر جب ہاتھ مارا دوسرا​

اِتنی دُنیا، اِتنے چہرے، اِتنی آنکھیں چار سُو​
اُس نے پھر بھی کر دیا مجھ کو اِشارہ دوسرا​

آسماں پر کوئی تھوڑے سے سِتارے تو نہیں​
ایک چمکے کم اگر، چُن لو سِتارہ دوسرا​

مجھ کو تو پہلا کِنارہ بھی نظر آتا نہیں​
ہے کہاں بحرِ فلک تیرا کِنارہ دوسرا​

درمیاں پردہ رہا اِک دِن تکلف کا بہت​
بھید سارا کُھل گیا جب دِن گزارا دوسرا​

تب کہیں مہندی لگا وہ ہاتھ پہچانا گیا​
اُس نے دَر کی اوٹ سے جب پُھول مارا دوسرا​

جان دے دی اُس کے پہلے ہی اِشارے پر عدیم​
میں نے دیکھا ہی نہیں اُس کا اِشارہ دوسرا