AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...
Showing posts with label احمد فراز. Show all posts
Showing posts with label احمد فراز. Show all posts

Tuesday, 16 April 2019

احمد فراز

مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا

وہ اپنے زعم میں تھا بے خبر رہا مجھ سے
اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا

وہ برق رو تھا مگر وہ گیا کہاں جانے
اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا

چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
سفینہ اس کا خدا اس کا ناخدا اس کا

یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہم نوا اس کا

ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا

Friday, 11 January 2019

احمد فراز

ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا

اے میرے ابر گریزاں مری آنکھوں کی طرح
گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا

آج تک یاد ہے اظہار محبت کا وہ پل
کہ مری بات کی لکنت پہ وہ ہنستا جاتا

اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
گر ترسنا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا

احمد فراز

Sunday, 6 January 2019

احمد فراز

کسی جانب سے بھی پرچم نہ لہو کا نکلا
اب کے موسم میں بھی عالم وہی ہُو کا نکلا

دستِ قاتل سے کچھ امیدِ شفا تھی لیکن
نوکِ خنجر سے بھی کانٹا نہ گلو کا نکلا

عشق الزام لگاتا تھا ہوس پر کیا کیا
یہ منافق بھی ترے وصل کا بھوکا نکلا

جی نہیں چاہتا میخانے کو جائیں جب سے
شیخ بھی بزم نشیں اہلِ سبو کا نکلا

دل کو ہم چھوڑ کے دنیا کی طرف آئے تھے
یہ شبستاں بھی اسی غالیہ مؤ کا نکلا

ہم عبث سوزن و رشتہ لیے گلیوں میں پھرے
کسی دل میں نہ کوئی کام رفو کا نکلا

یارِ بے فیض سے کیوں ہم کو توقع تھی فراز
جو نہ اپنا نہ ہمارا نہ عدو کا نکلا

احمد فراز ​

Wednesday, 22 August 2018

احمد فراز

۔وحشتیں بڑھتیں گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ

ہم نے اک عمر گزاری ہے غمِ یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ

اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق میں عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ

اس قدر خوف ہے اس شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ!

شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ

ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ

جو شرف ہم کو ملا کوچہء جاناں سے فراز
سرِمقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ

**احمد فراز**

احمد فراز

یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آگئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آگئے
یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آگئے
پھر اس طرح ہوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دیوار آگئے
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آگئے
آواز دے کہ چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آگئے

Monday, 20 August 2018

احمد فراز

عشق بس ایک کرشمہ ہے، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے، یوں ہے

اب تم آئے ہو میری جان !! تماشا کرنے ؟؟
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے، یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے، یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے، یوں ہے

احمد فراز

Saturday, 18 August 2018

احمد فراز

عمر   بھر   کا    مان    ٹوٹا    اور  کیا
موڑ    آیا   ساتھ    چھوٹا     اور   کیا

کون سچ کہتا ہے  سچ   سنتا  ہے  کون
میں بھی جھوٹا تو بھی جھوٹا اور کیا

جان    سے   جانا   ضروری    تو   نہیں
عاشقی   میں  سر   تو  پھوٹا  اور  کیا

ہوتے    ہوتے     لعل    پتھر    ہو   گئے
رفتہ    رفتہ    رنگ    چھوٹا   اور  کیا

رہ   گیا    تھا    یاد    کا   رشتہ   فقط
آخرش  یہ   پل   بھی   ٹوٹا   اور   کیا

اس کی آنکھیں بھی کھبی سچ  بولتی
دل تو تھا جھوٹوں سے جھوٹا اور کیا

غیر   تو    تھے   غیر    اپنے   آپ   کو
سب سے بڑھ  کر  ہم  نے  لوٹا  اور کیا

اس    قدر   کافی    تھی    یاد    کربلا
روئے   دھوئے   سینہ    کوٹا   اور   کیا

آؤ    دیکھو     تو     ذرا      باغِ    وفا
اب   کوئی  گل   ہے   نہ  بوٹا  اور  کیا

فتنہ  سامانی  میں  یکساں  ہیں  فرازؔ
اپنا     دل   ہو    یا    کہوٹا   اور   کیا

احمد فرازؔ

Monday, 30 July 2018

احمد فراز

آنکھیں

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لیے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا اٹھا کر آنکھیں

اس جگہ آج بھی بیٹھا ہوں اکیلا یارو
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں

مجھ سے نظریں وہ اکثر چرا لیتے ہیں فراز
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں

Saturday, 7 July 2018

احمد فراز

یونہی مر مر کے جئیں وقت گذارے جائیں
زندگی ہم ترے ہاتھوں سے نہ مارے جائیں

(احمد فراز)

Monday, 2 April 2018

احمد فراز

کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہا نہ کروں اور گنگناؤں اسے

وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے

یہ لوگ تذکرے کرتےہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں،اب کہاں سے لاؤں اسے

مگر وہ زود فراموش ، زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے ، اگر یاد کچھ دلاؤں اسے

وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو ، گنواؤں اسے

جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

Tuesday, 9 January 2018

احمد فراز


اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی​
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی​

میں بھی شہرِ وفا میں نو وارد​
وہ بھی رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی​

میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس​
وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی​

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ​
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی​


گر چہ پہلا سا اجتناب نہیں​
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی​

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھِلتا​
بُوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی​

خود کلامی میں کب یہ نشّہ تھا​
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی​

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں​
دُوریوں میں بھی دلکشی ہے ابھی​

فصلِ گُل میں بہار پہلا گلاب​
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی​

رات کس ماہ وش کی چاہت میں​
یہ شبستاں سجا رہی ہے ابھی​

میں کسی وادیِ خیال میں تھا​
برف سی دل پہ گر رہی ہے ابھی​

میں تو سمجھا تھا بھر چکے سب زخم​
داغ شاید کوئی کوئی ہے ابھی​

دور دیسوں سے کالے کوسوں سے​
کوئی آواز آ رہی ہے ابھی​

زندگی کوئے نا مرادی سے​
کس کو مڑ مڑ کے دیکھتی ہے ابھی​

اس قدر کھِچ گئی ہے جاں کی کماں​
ایسا لگتا ہے ٹوٹتی ہے ابھی​

ایسا لگتا ہے خلوتِ جاں میں​
وہ جو اک شخص تھا، وہی ہے ابھی​

مدتیں ہو گئیں فراز مگر​
وہ جو دیوانگی سی تھی، ہے ابھی​

(احمد فراز)​

Tuesday, 26 December 2017

احمد فراز

اسی خیال سے تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں

اس اک چراغ کی لو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں

مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتبار نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں

جدا سہی میری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں

صداۓ غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
میرا وجود ہے پتھر جو لوٹ کر دیکھوں

وہ لب فراز اگر کر سکیں مسیحائی
بقولِ درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوں

Saturday, 2 December 2017

احمد فراز

غیر سے تیرا آشنا ہونا
گویا اچھا ہوا برا ہونا

خودنگوں سار، ہمسفر بیزار
اک ستم ہے شکستہ پا ہونا

کتنی جانکاہ ہے ضمیر کی موت
کتنا آساں ہے بیوفا ہونا

نشۂ لذتِ گناہ کے بعد
سخت مشکل ہے پارسا ہونا

آدمی کو خدا نہ دکھلائے
آدمی کا کبھی خدا ہونا

دل کی باتوں پہ کون جائے فراز
ایسے دشمن کا دوست کیا ہونا

Sunday, 15 October 2017

احمد فراز

یَہی ناصِح جو ہَمیں تُجھ سے نہ مِلنے کو کَہَیں،
تُجھ کو دیکھیں تو تُجھے دیکھنے آنے لَگ جائیں،

ہَم کہ ہیں لَذَّتِ آزار کے مارے ہُوئے لوگ،
چارَہ گَر آئیں تو زَخموں کو چھُپانے لَگ جائیں،

قُرب اَچھّا ہے مَگَر اِتنی بھی شِدَّت سے نہ مِل،
یہ نہ ہو تُجھ کو میرے روگ پُرانے لَگ جائیں،

احمد فراز

Saturday, 14 October 2017

احمد فراز

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو

کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو

مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں

ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو

میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی

میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو

ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے

یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو

فضا اداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں

جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو

فرازؔ تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا

زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو

Sunday, 17 September 2017

احمد فراز

ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﺍﺩِ ﺟﻔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺑﺴﻤﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﻮ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﻭﺣﺸﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺭﻭﺯﻥِ ﺯﻧﺪﺍﮞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﮩﺮ ﻭ ﻣﮧ ﻭ ﺍﻧﺠﻢ ﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﺍﮎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯِ ﻋﻼﺝِ ﻏﻢِ ﺟﺎﮞ ﮨﮯ
ﺍﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮﻭ، ﺩﺭﺩ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﻣﻨﺼﻒ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺗﻮ ﮐﺐ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ
ﻣﺠﺮﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺳﺰﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﺭﮨﺰﻥ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ ﻣﺘﺎﻉِ ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺭﮨﺒﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﯽ ﺍﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺯؔ ﺍﮨﻞِ ﭼﻤﻦ ﭘﺮ
ﯾﺎﺭﺍﻥِ ﻗﻔﺲ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺻﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ

احمد فراز