AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Sunday 30 September 2018

مفتی صدر الدین آزردہ

ناصح یہاں یہ فکر ہے سینہ بھی چاک ہو

ہے فکر بخیہ تجھ کو گریباں کے چاک میں

Saturday 29 September 2018

مجیب خیر آبادی

زِیست آوارہ سہی زُلفِ پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح

تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح

زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح

تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور بڑھے
تو فروزاں ہی رہے شمعِ فروزاں کی طرح

اُس کی قُربت میں گزُارے ہُوئے لمحوں کا خیال
اب بھی پیوست ہے دِل میں کسی پیکاں کی طرح

اُس کی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنّا کے چراغ
اُس کا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح

اب کسی جانِ تمنا کو بَھلا کیا معلوُم
دِل سُلگتا ہے چراغِ تہہِ داماں کی طرح

ایک دستک سی درِ دِل پہ سُنائی دی ہے
کون گزُرا ہے نسیمِ چمَنِستاں کی طرح

یوں نہ ہو پھر کوئی بے رحم ہَوا کا جھونکا
لے اُڑے کشتیِ دِل موجۂ طُوفاں کی طرح

جُرم اِتنا، کہ نہ تھا غمزۂ خُوباں کا دماغ
قید اِس شہر میں ہیں یُوسفِ کنعاں کی طرح

ہم سے اُلجھیں نہ فقیہانِ حرَم سے کہہ دو
ہم بھی مجبُور ہیں اِس دَور کے اِنساں کی طرح

کوئی آواز نہ آہٹ ، نہ کوئی شوخ کِرن
ذہن تاریک ہے اب گوشۂ زنداں کی طرح

آؤ ہم اہلِ جنُوں مشعلِ جاں لے کے چلیں
راہ پُرپیچ سہی کاکُلِ پیچاں کی طرح

زندگی باعثِ آزارِ دِل و جاں ہے مُجیب
قہر برسا ہے، مگر رحمتِ یزداں کی طرح

مجیب خیر آبادی

واقف لاہوری

مرا چہ عیش کہ دارم دو دشمنِ آرام
دلِ فگار یکے، جانِ بے قرار یکے

واقف لاہوری

میرا عیش سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ میرے آرام کے دو دشمن ہیں
ایک پریشان دل اور ایک بیقرار جان

محسن بھوپالی

تباہیوں کا کِسی نے اگر سبب پُوچھا
زبانِ حال نے بے ساختہ کہا آنکھیں۔۔۔!

محسنؔ بھوپالی

Friday 28 September 2018

مرزا عبدالقادر بیدل

عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست

(ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل)

یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔

صائب تبریزی

مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید

(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)

شیراز ساگر


پس منظرِ عروج میں میری شکست ہے
فتحِ مبیں جو حال ہے ماضی شکست ہے

جی چاہتا ہے پہلی محبت کہوں تجھے
لیکن یہ سچ ہے تو مری پہلی شکست ہے

تنہا نہ لڑسکوں گا زمانے کے ساتھ میں
قربت ہماری جیت ہے دوری شکست ہے

مجھ کو کسی عدو سے ہزیمت نہیں ہوئی
میں نے خود اپنے آپ سے کھائی شکست ہے

اے وقت کے یذید ترا جشن ہے عبث
گردن مری اڑا کے بھی تیری شکست ہے

شیراز ساگر

شیراز ساگر

ہر مصلحت پسند نے کردار بیچ کر
گردن بچاٸی جراتِ اظہار بیچ کر

یونہی تو بارگاہ میں مسند نہیں ملی
خلعت ملی ہے آپ کو گفتار بیچ کر

مرنے لگا تو تھے درودیوار بے خبر
مدت سے جی رہا تھا جو اخبار بیچ کر

طرزِ قدیم چھوڑ یے دشمن جدید ہے
کاغذ قلم خرید یے تلوار بیچ کر

محنت کی تیز دھوپ میں تعطیل جل گٸی
خوشیاں خریدنی پڑیں اتوار بیچ کر

شیراز ساگر

Thursday 27 September 2018

دوسطری

‏بند آنــکھوں کــا مــعــجزہ دیـــکھو
ان کا دیــــدار ، کــر لــیا مـــیں نے!

Wednesday 26 September 2018

نا معلوم

اداس لوگوں کی بستیوں میں
وہ تتلیوں کو تلاش کرتی
وہ ایک لڑکی . . .

وہ گول چہرہ ، وہ کالی آنکھیں
جو کرتی رہتی ہزار باتیں
مزاج سادہ ، ، ، وہ دل کی اچھی
وہ ایک لڑکی . . .

ساری باتیں وہ دل کی مانے
وہی کرے وہ ، جو دل میں ٹھانے
کوئی نا جانے ، ، کیا اس کی مرضی
وہ ایک لڑکی . . .

وہ چاہتوں کے سراب دیکھے
محبتوں کے وہ خواب دیکھے
وہ خود سمندر مگر ہے پیاسی
وہ ایک لڑکی . . .

وہ دوستی کے نصاب جانے
وہ جانتی ہے عہد نبھانے
وہ اچھی دوست وہ اچھی ساتھی
وہ ایک لڑکی . . .

وہ جام چاہت کا پینا چاھے
وہ اپنے مرضی سے جینا چاھے
مگر ہے ڈرتی ، ، ، مگر ہے ڈرتی
وہ ایک لڑکی . . .

محبتوں کا جو فلسفہ ہے
وہ جانتی ہے ، ، ، اسے پتہ ہے
وہ پھر بھی رہتی ڈری ڈری سی
وہ ایک لڑکی . . .

وہ جھوٹے لوگوں کو سچا سمجھے
وہ ساری دنیا کو اچھا سمجھے
وہ کتنی سادی ، ، ، وہ کتنی پگلی
وہ ایک لڑکی

Wednesday 19 September 2018

خمار بارہ بنکوی

گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتا ً بھی قدم لرکھڑائے ہیں!!
"خمار بارہ بنکوی"

Saturday 15 September 2018

واصف علی واصف

ﻋﺸﻖ ﻣﺰﻣﻞ ، ﻋﺸﻖ ﻣﺪﺛﺮ ، ﻃٰﮧٰ ﺗﮯ ﯾٰﺴﯿﻦ
ﻇﺎھﺮ ﺑﺎﻃﻦ ﺫﺍﺕ ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ، ﺍﯾﮩﻮ ﻣُﮉﮪ ﺍﺧﯿﺮ

ﻋﺸﻖ ﺷﮩﯿﺪ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺣﻖ ﺩﯼ ﻋﺸﻖ ﺭﺿﺎ ﺩﺍ ﺑﻨﺪﮦ
ﻋﺸﻖ ﺍﻭﯾﺲؒ، ﺍﺑﻮﺫﺭؓ، ﺟﺎﻣﯽؒ، ﻋﺸﻖ ﻋﻠﯽؓ ﺷﺒﯿﺮؓ

ﻋﺸﻖ ﺩﺍ ﮈﯾﺮﮦ ﺳﻮﻟﯽ ﺍُﭘﺮ، ﻋﺸﻖ ﺗﮯ ﻣﻮﺕ ﺣﺮﺍﻡ
ﻭﺻﻞ ﻓﺮﺍﻕ ﺗﻮﮞ ﻋﺸﻖ ﺍﮔﯿﺮﮮ ، ﻋﺸﻖ ﺳﻤﯿﻊ ﺑﺼﯿﺮ

ﻣﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﺪﺍ ، ﺟﯽ ﮐﮯ ﻣَﺮﺩﺍ، ﻋﺸﻖ ﺑﮍﺍ کجھ ﮐﺮﺩﺍ
“ﻣﻮﺗﻮ ﻗﺒﻞ“ ، ”ﺑﻞ ﺍﺣﯿﺎﮬﻢ” ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﺫﺍﺕ ﻗﺪﯾﺮ

ﻋﻘﻼﮞ ﻧﺎﻝ ﻋﺸﻖ ﻧﮧ ھوندا، ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﺍُﻟﭩﯽ ﭼﺎﻝ
ﻋﺸﻖ ھﻮﻭﮮ ﺗﮯ ﻭﮔﺪﮮ ﻭﺍﺻﻒؔ ، ﺍﮐﮭﺎﮞ ﺩﮮ ﻭﭺ ﻧﯿﺮ

”واصف علی واصف​“

Friday 14 September 2018

حبیب جالب

ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصہ ء غم آ تو گئے ہم

اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم

کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم

جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر
دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم

کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں
رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم

اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے
پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم

اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ
لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم

حبیب جالب

Wednesday 12 September 2018

جون ایلیاء

ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر ، اس کی تمنا کیے بغیر

انبار اس کا پردہِ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری ، پردہ کیا بغیر

یاراں! وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے ، اچھا کیے بغیر

میں بسترِ خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبحِ ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر

اس کا ہے جو بھی کچھ ، ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہیے کوئی سودا کیے بغیر

یہ زندگی جو ہے اسے معنی بھی چاہیے
وعدہ ہمیں قبول ہے ، ایفا کیے بغیر

اے قاتلوں کے شہر! بس اتنی سی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل ، کوئی تماشا کیے بغیر

مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بےحساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو ، صحرا کیے بغیر

ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا
آرائشِ نظر تری ، پروا کیے بغیر

یاراں! خوشا! یہ روز و شبِ دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوشگوار ، گوارا کیے بغیر

گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں ، گریہ کیے بغیر

آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے ، توبہ کیے بغیر

سنی بچہ وہ کون تھا ، جس کی جفا نے جون
شیعہ بنا دیا ہمیں ، شیعہ کیے بغیر

اب تم کبھی نہ آؤ گے ، یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر

Sunday 9 September 2018

عید

کہہ دیا اُس نے مجھے عید مبارک لیکن۔۔!
صرف کہنے سے کہاں عید مبارک ہو گی۔۔

دو سطری

غصے میں، برہمی میں، غضب میں، عتاب میں،
خود آگئے ہیں وہ میرے خط کے جواب میں۔۔

عید

جب چاہیں ہم عید منا لیں۔۔
چاند    ہمارا    اپنا    ہے۔۔!

میاں داد خان سیاح

قیس جنگل میں اکیلا ہے، مجھے  جانے  دو۔۔
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔۔

جاں بلب دیکھ کے مجھ کو میرے عیسٰی نے کہا،
لا دوا  درد  ہے  یہ ، کیا  کروں ؟ مر  جانے  دو۔۔

لال ڈورے تیری آنکھوں میں جو دیکھے تو کُھلا،
مئے  گل  رنگ   سے   لبریز   ہیں   پیمانے   دو۔۔

ٹھہرو ! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر؟
دل کا صدقہ تو ابھی  سر سے  اُتر  جانے  دو۔۔

منع کیوں کرتے ہو عشقِ بتِ شیریں لب سے،
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو، غم کھانے دو۔۔

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے،
قافلہ  یاروں  کا  اگر  جاتا  ہے ، جانے  دو۔۔

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار،
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں  پروانے  دو۔۔

ایک  عالم  نظر  آئے  گا   گرفتار   تمہیں،
اپنے گیسوئے رسا  تا  بہ  کمر  جانے  دو۔۔

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک،
پڑ  گئے  ہیں  تیری  شمشیر  میں  دندانے  دو۔۔

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی،
میں نہ سمجھونگا کسی طرح سے، سمجھانے دو۔۔

رنج دیتا ہے جو وہ  پاس  نہ  جاؤ  سیّاح،
مانو کہنے کو میرے، دور  کرو، جانے  دو۔۔
۔۔۔۔
میاں داد خان سیّاح

عبد الحمید عدم

دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں
کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں
ہم مکر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں
رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے
ہنس کے مر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
نکل آئے ہیں عدم سے تو ججھکنا کیسا
در بدر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں

Saturday 8 September 2018

عدیم ہاشمی

زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادھورے سے کئی کام ابھی

ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سر شام ابھی

اک نظر اور ادھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی

رات آئی ہے تو کیا تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لکھا ہے آرام ابھی

جان دینے میں کروں دیر یہ ممکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی

طائر دل کے ذرا پر تو نکل لینے دو
اس پرندے کو بھی آنا ہے تہ دام ابھی

توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی

میرے ہاتھوں میں ہے موجود ترے ہاتھ کا لمس
دل میں برپا ہے اسی شام کا کہرام ابھی

میں ترا حسن سخن میں ابھی ڈھالوں کیسے
میرے اشعار بنے ہیں کہاں الہام ابھی

مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی

یاد کے ابر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیم
اک دھندلکا سا ہے بھیگی تو نہیں شام ابھی

Wednesday 5 September 2018

دو سطری

میں نے کہا خراب ہوں گردشِ چشمِ مست سے
اس نے کہا کہ رقص کر، سارا جہاں خراب ہے

اقبال ارشد

اقبال ارشد
تجھ سے کرب ذات کا اظہار کیسے ہو گیا ؟
تُو محبت کے لئے مسمار کیسے ہو گیا ؟

موم جیسے لوگ کہساروں میں کیسے ڈھل گئے ؟
جن کا لہجہ پھول تھا تلوار کیسے ہو گیا ؟

میں نے تو ہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہو گیا ؟

Sunday 2 September 2018

شاکر شجاع آبادی

مڑھ مونجھ کوں شاکر گل پاتم
تیڈی مونجھ تعویز دا کم کیتے

Saturday 1 September 2018

عدیم ہاشمی

آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا​
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا​

جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں​
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا​

چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے​
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا​

ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ​
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا​

اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں​
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا​

ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب​
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا​

جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں​
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا​

اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی​
میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا