AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday 18 December 2018

دوسطری

میں تیرا  حُسن اگر  پُھونک دوں دیواروں پر
شہر کا شہر ، طلسمات میں ڈھل جاۓ گا.......

Sunday 16 December 2018

فضل احمد کریم فضلی

فضل احمد کریم فضلی
غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
نہ ہو یہ کھیل تو پھر لطف زندگی بھی نہیں

نہیں کہ دل میں تمنا مرے کوئی بھی نہیں
مگر یہ بات کچھ ایسی کی گفتنی بھی نہیں

ابھی میں کیا اٹھوں نیت ابھی بھری بھی نہیں
ستم یہ اور کہ مے کی ابھی کمی بھی نہیں

ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل
غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں

حضور دوست مرے گو مگو کے عالم نے
کہا بھی ان سے جو کہنا تھا بات کی بھی نہیں

ہمارے ان کے تعلق کا اب یہ عالم ہے
کہ دوستی کا ہے کیا ذکر دشمنی بھی نہیں

کہا جو ترک محبت کو شیخ نے کھلا
فرشتہ تو نہیں لیکن یہ آدمی بھی نہیں

Wednesday 12 December 2018

وحید اختر


وحید اختر
دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے ترا نقش کف پا یاد نہیں ہے
افسردگی عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دل زدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
ہاں مٹ گئے جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل
خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ہے
لیتے ہیں ترا نام ہی یوں جاگتے سوتے
جیسے کہ ہمیں اپنا خدا یاد نہیں ہے
یہ ایک ہی احسان غم دوست ہے کیا کم
بے مہری دوراں کی جفا یاد نہیں ہے
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے
اس بار وحیدؔ آپ کی آنکھیں نہیں برسیں
کیا جھومتی زلفوں کی گھٹا یاد نہیں ہے

Monday 10 December 2018

دیو منی پانڈے

دیومنی پانڈے

اس جہاں میں پیار مہکے زندگی باقی رہے
یہ دعا مانگو دلوں میں روشنی باقی رہے

آدمی پورا ہوا تو دیوتا ہو جائے گا
یہ ضروری ہے کہ اس میں کچھ کمی باقی رہے

دوستوں سے دل کا رشتہ کاش ہو کچھ اس طرح
دشمنی کے سائے میں بھی دوستی باقی رہے

دل کے آنگن میں اگے گا خواب کا سبزہ ضرور
شرط ہے آنکھوں میں اپنی کچھ نمی باقی رہے

عشق جب کریے کسی سے دل میں یہ جذبہ بھی ہو
لاکھ ہوں رسوائیاں پر عاشقی باقی رہے

دل میں میرے پل رہی ہے یہ تمنا آج بھی
اک سمندر پی چکوں اور تشنگی باقی رہے

Friday 7 December 2018

دوسطری

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

بسمل سعیدی

غم نہیں نازِ حسن ہے، حسن کے ناز اٹھائے جا
اے دلِ مبتلائے غم! غم میں بھی مسکرائے جا

حسن ہے عشقِ آفریں حسن پہ دل لٹائے جا
عشق کو دردِ دل بنا، درد کو دل بنائے جا

جلوہ بہ جلوہ گر نہیں، پردہ بہ پردہ آئے جا
دل میں مرے سمائے جا، روح میں جگمگائے جا

شُورشِ کائنات میں غم کو خوشی منائے جا
ہنس مرے آنسوؤں میں تُو، آہ میں مسکرائے جا

تاروں میں جگمگائے جا، چاند میں مسکرائے جا
دور  سے  کوئی  نغمۂ روح  فزا سنائے  جا

ضبط بقدرِ ظرف ہے، ظرف بقدرِ شوق ہے
تُو ابھی سامنے نہ آ، شوق ابھی بڑھائے جا

باہمہ ترکِ رسم و راہ کچھ تو ہو التفات بھی
تو مجھے بھول جا  مگر، یاد مجھے آئے جا

حسن سے بڑھ کے بدگماں عشق ہے اپنے آپ سے
میں ابھی مطمئن نہیں، تو مجھے آزمائے جا

صرف  جبینِ  شوق  ہو اور  کسی کا آستاں
سجدے بھی درمیاں نہ ہوں سجدوں کو بھی مٹائے جا

بزمِ نشاطِ کائنات مجھ پہ ہے خندہ زن ہنوز
خلوتِ غم میں تو ابھی اور مجھے رلائے جا

اب نہ وہ بسمل اور نہ تُو اب نہ وہ دل نہ آرزو
اب تو خدا کے واسطے یاد اسے نہ آئے جا

(بسمل سعیدی)

Thursday 6 December 2018

وارث کرمانی

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے
چارہ سازوں کو مری شامِ بلا بھی نہ ملے

حسرت  آگیں تو  ہے  ناکامئ  منزل  لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے

کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے

خواہشِ داد رسی کیا ہو ستمگر سے جہاں
آنکھ  میں  شائبۂ  عذرِ  جفا  بھی  نہ ملے

اس قدر قحطِ بصیرت بھی نہیں اے واعظ
ہم بتوں کے لئے  نکلیں تو  خدا بھی نہ ملے

عشق  وہ عرصۂ  پر خار  ہے ہمدم کہ جہاں
زندگی  راس  نہ آئے  تو  قضا  بھی نہ ملے

کیا  قیامت  ہے طبیعت  کی  روانی  وارث
کوئی ڈھونڈھے تو نشانِ کفِ پا بھی نہ ملے

(وارث کرمانی)

Tuesday 4 December 2018

دو سطری

آپ کو کون ‘تُم’ پکارے گا۔۔۔؟

آپ کس کو کہا کریں گے ‘آپ’ ؟

Tuesday 27 November 2018

کرشن موہن

چاہتوں کا جہان ہے اردو
کرشن موہن
چاہتوں کا جہان ہے اردو
راحتوں کا نشان ہے اردو
عشق کا اعتبار اور وقار
حسن کی آن بان ہے اردو
دل فزا ضو کدہ صباحت کا
اور ملاحت کی کان ہے اردو
نثر کا ہے خرام خوش ہنگام
شاعری کی اڑان ہے اردو
زندہ ہے اپنا ذوق و شوق اس سے
آرزوؤں کی جان ہے اردو
لطف ہستی کا رنگ مستی کا
خوش نما کاروان ہے اردو
ذکر آرائش خم کاکل
کیف ہندوستان ہے اردو
دفتر اتحاد و یک جہتی
پیار کی داستان ہے اردو
ایکتا ہے انیکتا میں بھی
دوست داری کا مان ہے اردو
غالبؔ و میرؔ اس کے شیدا تھے
جن کی روح روان ہے اردو
آتشؔ و مومنؔ و نظیرؔ و جگرؔ
جن کی رنگیں زبان ہے اردو
اس کے عاشق نسیمؔ اور چکبستؔ
جن کے جذبوں کی شان شان ہے اردو
دوست اس کے سرورؔ اور سرشارؔ
اس لئے شادمان ہے اردو
درد مند اس کے پریم چندؔ رہے
جن کے باعث جوان ہے اردو
اس کے مشتاق ملاؔ اور فراقؔ
جن کے دل کا بیان ہے اردو
نعرہ زن جوشؔ کا خروش اس میں
جوش کی ترجمان ہے اردو
فیضؔ و اقبالؔ و کرشن چندر سے
وسعت بے کران ہے اردو
دھوم محرومؔ کی ہوئی اس میں
اور منورؔ کی آن ہے اردو
راشدؔ و میراجیؔ کی البیلی
شوخ ادا راز دان ہے اردو
فطنت و فن کی دولت بیدار
کرشن موہنؔ کی جان ہے اردو

Sunday 25 November 2018

اقبال عظیم

وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا

مزاج اس نے نہ پوچھا، مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا

غبارِ وقت نے کچھ یوں بدل دئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا

گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا، کچھ بجھا بجھا سا لگا

جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا، کچھ سنا سنا سا لگا

مجال  عرضِ  تمنا  کرے  کوئی  کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا

میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا، کچھ تھکا تھکا سا لگا

اسی کا نام ہے شائستگی، و پاسِ وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا

کچھ اس خلوص سے اس نے مجھے کہا " اقبال "
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا

(اقبال عظیم)

Friday 23 November 2018

جمیل الدین عالی


جمیل الدین عالی
اب تک مجھے نہ کوئی مرا رازداں ملا
جو بھی ملا اسیر زمان و مکاں ملا

کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گریز
سو بار بجلیوں کو مرا آشیاں ملا

اکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش سے
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا

مدت میں ہم نے آپ بنایا تھا اک افق
جاتے تھے اس طرف کہ ترا آستاں ملا

کن حوصلوں کے کتنے دیے بجھ کے رہ گئے
اے سوز عاشقی تو بہت ہی گراں ملا

کیا کچھ لٹا دیا ہے تری ہر ادا کے ساتھ
کیا مل گیا ہمیں جو یہ حسن بیاں ملا

تھا ایک راز دار محبت سے لطف زیست
لیکن وہ راز دار محبت کہاں ملا

اک عمر بعد اسی متلون نگاہ میں
کتنی محبتوں کا خزانہ نہاں ملا

اب جستجو کا رخ جو مڑا ہے تو مت پکار
سب تجھ کو ڈھونڈتے تھے مگر تو کہاں ملا

Tuesday 20 November 2018

مظفر رزمی

شامِ غم ہے تری  یادوں کو  سجا رکھا ہے
میں نے دانستہ چراغوں کو بجھا رکھا ہے

اور کیا دوں میں گلستاں سے محبت کا ثبوت
میں نے کانٹوں کو بھی پلکوں پہ سجا رکھا ہے

جانے کیوں برق کو اس سمت توجہ ہی نہیں
میں  نے ہر  طرح نشیمن  کو سجا رکھا  ہے

زندگی سانسوں کا تپتا ہوا صحرا ہی سہی
میں  نے اس ریت  پہ اک  قصر بنا  رکھا ہے

وہ مرے  سامنے دلہن کی  طرح بیٹھے  ہیں
خواب اچھا ہے، مگر خواب میں کیا رکھا ہے

خود سناتا ہے انہیں میری محبت کے خطوط
پھر  بھی قاصد  نے  مرا نام  چھپا  رکھا ہے

کچھ نہ کچھ تلخئ حالات ہے شامل رزمی
تم نے پھولوں سے بھی دامن جو بچا رکھا ہے

(مظفر رزمی)

Thursday 15 November 2018

دوسطری

نگاہِ یار کی لذت شراب کیا جانے
ہزار جام تصدق ہزار مےخانے

Wednesday 14 November 2018

جون ایلیا

کربِ تنہائی ہے وہ شے! کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے!

Tuesday 13 November 2018

غلام بھیک نیرنگ

پھر وہی ہم ہیں، خیالِ رُخِ زیبا ہے وہی
سرِ شوریدہ وہی، عشق کا سودا ہے وہی

دانہ و دام سنبھالا مرے صیّاد نے پھر
اپنی گردن ہے وہی، عشق کا پھندا ہے وہی

پھر لگی رھنے تصوّر میں وہ مژگانِ دراز
رگِ جاں میں خلشِ خارِ تمنّا ہے وہی

پھر لگا رہنے وہی سلسلۂ راز و نیاز
جلوۂ حُسن وہی، ذوقِ تماشا ہے وہی

پھر ہوا ہم کو دل و دیں کا بچانا مشکل
نگہِ ناز کا پھر ہم سے تقاضا ہے وہی

ناز نے پھر کیا آغاز وہ اندازِ نیاز
حُسنِ جاں سوز کو پھر سوز کا دعویٰ ہے وہی

محوِ دیدِ چمنِ شوق ہے پھر دیدۂ شوق
گُلِ شاداب وہی، بلبلِ شیدا ہے وہی

پھر چمک اُٹّھی وہ کجلائی ہوئی چنگاری
رختِ ہستی ہے وہی، عشق کا شعلہ ہے وہی

آرزو جی اُٹھی پھر پیار جو اُس بُت نے کیا
پھر لبِ یار میں اعجازِ مسیحا ہے وہی

پاسِ ناموس نے پھر رخصتِ رفتن چاہی
شہرتِ حُسن وہی، الفتِ رسوا ہے وہی

پھر ہوئی لیلیٰ و مجنوں کی حکایت تازہ
اُن کا عالم وہی، نیرنگؔ کا نقشہ ہے وہی

(غلام بھیک نیرنگؔ)

Monday 12 November 2018

خورشید رضوی

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کا اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Saturday 10 November 2018

محسن نقوی

محسنؔ نقوی

مجھے خلا  میں بھٹکنے  کی  آرزو  ہی  سہی
کہ تُو  مِلے نہ  مِلے  تیری  جُستجو  ہی  سہی

قریب  آ  شبِ   تنہائی  تجھ  سے  پیار  کریں
تمام   دن  کی  تھکن  کا  علاج  تُو  ہی  سہی

بڑے خلوص سے  ملتا  ہے جب  بھی  ملتا  ہے
وہ  بے وفا  تو  نہیں  ہے  بہانہ  جُو  ہی  سہی

مگر   وہ   اٙبر   سٙمُندر   پہ  کیوں   برستا  ہے
زمین  بانحھ  سہی، خاک   بے  نُمُو  ہی  سہی

تم    اپنے   داغِ   سٙرِ   پیرہن   کی   بات  کرو
ہمارا   دامنِ   صد   چاک   بے   رفو  ہی  سہی

یہ ناز  کم  تو  نہیں  ہے  کہ  اُن  سے  مل  آئے
وہ  ایک   پل  کو   سرِ   راہ  گفتگو  ہی  سہی

جو اپنے آپ سے شرمائے، کس  سے  بات  کرے
میں  آئینے کی طرح اُس  کے  رُوبُرو  ہی  سہی

کِسی  طرح   تو   یہ  تنہایؑیوں  کی  شام  کٹے
وصالِ    یار    نہیں   قُربتِ   عدو    ہی   سہی

یہ   سجدہّ   سرِ  مقتل  کا   وقت   ہے  محسنؔ
خود اپنے خونِ رگِ جاں سے اب وضو ہی سہی

Thursday 8 November 2018

نا معلوم

پَت جھڑ کی برسات ہو جیسے
ایسی اُس کی باتیں تھیں
جھیل سمجھ رہے تھے جن کو
وہی تو اُس کی آنکھیں تھیں

Saturday 3 November 2018

بارش

ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ
ﮐﮭﮍﮐﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ
ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﺭہے ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﻠﺪ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ
ﺣﺴﻦ ﻭ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﺁﺝ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ
ﮐﭽﮫ ﻭﻗﻌﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﯿﮟ
ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺑﺴﺮﮮ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻭﮦ
ﭼﺎہتے ﺭہے ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﺁﻧﮑﮫ ﻧﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﻞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ
ﺧﻮﺏ ﺭﻭ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﺩﺭﺩ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﺍﺷﮏ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ

Thursday 1 November 2018

سیّد مظفر احمد ضیاؔ

یہ مانا کہ شہ رگ سے نزدیک ہے تُو
مَیں یہ فاصلہ بھی کہاں چاہتا ہُوں۔۔۔!

پیر نصیر الدین گولڑوی

تجھ سا نہ تھا کوئی ، نہ کوئی ہے حسیں کہیں
تُو بے مثال ہے ترا ثانی نہیں کہیں

اپنا جنوں میں مدِ مقابل نہیں کہیں
دامن کہیں ، جیب کہیں ، آستیں کہیں

زاہد کے سامنے جو ہو وہ نازنیں کہیں
دل ہو کہیں حُضور کا دُنیا و دیں کہیں

اک تیرے آستاں پہ جھکی ہے ہزار بار
ورنہ کہاں جھُکی ہے ہماری جبیں کہیں

دل کا لگاؤ ، دل کی لگی ، دل لگی نہیں
ایسا نہ ہو کہ دل ہی لُٹا دیں ہمیں کہیں

کیا کہیئے کس طرف گئے جلوے بکھیر کے
وہ سامنے تو تھے ابھی میرے یہیں کہیں

گزرے گی اب تو کوچہِ جاناں میں زندگی
رہنا پڑے گا اب ہمیں جا کر وہیں کہیں

دل سے تو ہیں قریب جو آنکھوں سے دُور ہیں
موجود آس پاس ہیں وہ بالیقیں کہیں

نظروں کی اور بات ہے دل کی ہے اور بات
باتیں جو میرے دل میں ہیں اب تک نہیں کہیں

اے تازہ واردانِ چمن ! ہوشیار باش
بجلی چمک رہی ہے چمن کے قریں کہیں

میرا ضمیر اپنی جگہ پر ہے مطمئن
اپنا سمجھ کے ان سے جو باتیں کہیں ' کہیں

دل نے بہت کہا کہ تمہیں مہرباں کہوں
اِس ڈر سے چُپ رہا کہ نہ کہہ دو نہیں ، کہیں

آتے ہی ہم تو کوچہِ جاناں میں لُٹ گئے
دل کھو گیا نصیر ہمارا یہیں کہیں

Wednesday 31 October 2018

کرشن بہاری نور


زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی! موت تیری منزل ہے
دُوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
زندگی! اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُورؔ! سنسار سے گیا ہی نہیں

کرشن بہاری نور

Saturday 27 October 2018

بیخود دہلوی

اُس سے حالِ تباہ کیا کہنا،
جو کہے سُن کے واہ کیا کہنا
بیخود دہلوی ؔ

Thursday 25 October 2018

بیدم وارثی

سراج الشعراء بیدم وارثی

تیغ کھینچی اس نے اور تیور بدل کر رہ گیا
آج بھی شوقِ شہادت ہاتھ مل کر رہ گیا

نزع میں بیمار کروٹ بدل کر رہ گیا
جب کہا اس نے سنبھل سنبھلا سنبھل کر رہ گیا

طفلِ اشک آنکھوں سے نکلا خون دل کے ساتھ ساتھ
ان کے دامن پر پڑا مچلا مچل کر رہ گیا

میرے آغوشِ تصور سے نکلنا ہے محال
اب خیالِ یار تو سانچے میں ڈھل کر رہ گیا

آتشِ رشک و حسد سے سنگ بھی خالی نہیں
دید موسیٰؑ کو ہوئی اور طور جل کر رہ گیا

اک ہمارا دل کہ محوِ لذتِ دیدارِ شمع
ایک پروانہ کہ دیکھا اور جل کر رہ گیا

رازِ دل کا پردہ رکھا رعبِ حسن یار نے
حرفِ مطلب منہ سے نکلا اور نکل کر رہ گیا

یادِ جاناں میں تری شعلہ مزاجی کے نثار
دل میں جو کچھ تھا سوا تیرے وہ جل کر رہ گیا

جاں نثاروں کا تھا آج اس درجہ مقتل میں ہجوم
خنجرِ قاتل بھی دو اک ہاتھ چل کر رہ گیا

سوز و سازِ عشق کا انجام بیدؔم دیکھ لو
شمع ٹھنڈی ہو گئی پروانہ جل کر رہ گیا

عدیم ہاشمی

سرخئ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیم اتنے شرر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں
پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کیا سارا سفر پانی میں
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
کشتئ دل نے کیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں
اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی؟
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں
آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے ترا مجھ کو نظر پانی میں
لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہوا اس کا اثر پانی میں
دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں
فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں

Wednesday 24 October 2018

ہادی مچھلی شہری

ہادیؔ مچھلی شہری

اٹھنے کو  تو اٹھا ہوں محفل سے  تری  لیکن
اب  دل کو یہ دھڑکا ہے جاؤں تو کدھر جاؤں

مرنا مری  قسمت  ہے  مرنے  سے  نہیں  ڈرتا
پیمانۂ   ہستی    کو    لبریز   تو    کر   جاؤں

تو اور مری ہستی میں اس طرح  سما  جائے
میں اور تری نظروں سے اس طرح اتر  جاؤں

دنیائے   محبت   میں   دشوار  جو  جینا  ہے
مر کر ہی سہی آخر کچھ  کام  تو  کر  جاؤں

Saturday 20 October 2018

جلال لکھنوی

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلفِ یار کی بو
پھری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا

چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا

خبر کو یار کی بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواسِ رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا

جلالؔ باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی

Friday 19 October 2018

اسرار الحق مجاز


تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیٔ وحشت کی قسم حیرت کی قسم حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ہم راز تبسم پا بھی گئے

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

ارباب جنوں پر فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزری
آئے تھے سواد الفت میں کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

Thursday 18 October 2018

اسرار الحق مجاز

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
اسرار الحق مجاز
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا
کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

دنیا لرز گئی دل حرماں نصیب کی
اس طرح ساز عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

رنگینی نقاب میں گم ہو گئی نظر
کیا بے حجابیوں کا تقاضا کرے کوئی

یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو
یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی

ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجازؔ
اتنا نہ اہل عشق کو رسوا کرے کوئی

Wednesday 17 October 2018

حافظ شیرازی

گفتی کہ بہ مہ نَظَر کُن و انگار مَنَم
روئے تو ام آرزوست مہ را چہ کُنَم
مہ چُوں تو کُجا بُود کہ اندر ماھے
یک شب چو رُخَت باشد و باقی چو تَنَم

(حافظ شیرازی)

تو نے کہا کہ چاند کو دیکھ لوں اور سمجھ لے کہ میں ہوں۔ (لیکن) مجھے تو تمھارے چہرے کی آرزو ہے میں چاند کو کیا کروں۔ چاند تجھ جیسا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ تو ایک مہینے میں، (صرف) ایک رات (چودھویں کی) تمھارے چہرے کی طرح ہوتا ہے اور باقی راتوں میرے جسم کی طرح (نحیف و نزار و لاغر)۔

Tuesday 16 October 2018

خمار بارہ بنکوی

وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں

اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں

کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں

واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو کا بُرا مانتے نہیں

حد سے بڑھے توعلم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں، وہ کچھ جانتے نہیں

رہتے ہیں عافیّت سے وہی لوگ اے خمار
جو زندگی میں دل کا کہا مانتے نہیں

Monday 15 October 2018

سید ہمایوں مرزا حقیر

چشمِ مخمور سے بیخود جو نہ ہو جاتے ہم
دل کو آتشکدہ اور چشم کو دریا کرتے

کر کے بسمل جو ہمیں چھوڑ دیا قاتل نے
ہم تڑپتے کہ اسے دیکھتے کیا کیا کرتے

سید ہمایوں میرزا حقیر

Sunday 14 October 2018

علی زریون

حالت جو ہماری ہے تمہاری تو نہیں ہے
ایسا ہے تو پھر یہ کوئی یاری تو نہیں ہے
جتنی بھی بنا لی ہو، کما لی ہو یہ دنیا
دنیا ہے تو پھر دوست ! تمہاری تو نہیں ہے
تحقیر نہ کر ! یہ مِری اُدھڑی ہُوئی گدڑی
جیسی بھی ھے اپنی ہے ادھاری تو نہیں ہے
یہ تُو جو محبت میں صلہ مانگ رہا ہے
اے شخص تو اندر سے بھکاری تو نہیں ہے ؟
میں " ذات" نہیں، بات کے نشّے میں ہوں پیارے
اس وقت مجھے تیری خماری تو نہیں ہے
تنہا ہی سہی ، لڑ تو رہی ہے وہ اکیلی
بس تھک کے گری ہے ابھی ہاری تو نہیں ہے
مجمع سے اُسے یوں بھی بہت چڑ ہے کہ زریون
عاشق ہے مری جان ! مداری تو نہیں ہے
علی زریون

شاکر شجاع آبادی

اساں شاکر __ لوگ آوارہ جئے
ساکوں پیار نہ کر برباد ہو سی

Saturday 13 October 2018

پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی

بے خودی میں نہ رہی ہم کو نصیر اپنی خبر
ہوش آیا تو ہمیں جلوہءِ جاناں نکلے

Tuesday 9 October 2018

سعود عثمانی

جانا انجانا

یہ جان رکھنا کہ زندگی کی ہر ایک ساعت رواں دواں ہے
یہ دھیان رکھنا
کہ چند لمحوں کی یہ رفاقت بس ایک چھوٹی سی داستاں ہے
یہ ختم ہوگی تو یوں لگے گا کہ جیسے دھندلا سا خواب کوئی
نظر کی حد پر سراب کوئی
ذرا یہ سوچو کہ حافظے کا کھلا سمندر
نہ جانے کتنے رفیق و ہمدم سمو چکا ہے
رفیق چہرے جو نام تک اپنے کھو چکے ہیں
وہ سارے ساتھی جو اب فراموش ہوچکے ہیں

بھلا ہی دینا اگر یونہی وقت کا عمل ہے
تو یہ اٹل ہے
کہ مدتوں بعد یوں بھی ہوگا
اگر سرِ راہ اتفاقاً کبھی جو ہم تم کہیں ملیں گے
تو اپنے دل میں یہی کہیں گے
کہ اِس کا چہرہ تو آشنا تھا
خبر نہیں اس کا نام کیا تھا
یہ شخص جانے کہاں ملا تھا

(سعود عثمانی )

Saturday 6 October 2018

علی زریون

یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب
نہیں لگتا، مگر دھوکا ہے صاحب
یہ چرچا جو ہمارے نام کا ہے
تمھارے عشق کا صدقہ ہے صاحب
ابھی پرہیز رکھئے گفتگو سے
زوالِ عصر کا لمحہ ہے صاحب
طبیعت میں ذرا گرمی ہے اس کی
مگر وہ آدمی ہیرا ہے صاحب
تمھارے ہاں نہیں ہوتا ہے جو کچھ
ہمارے ہاں وہی ہوتا ہے صاحب
بچشمِ خشک مت پڑھنا اسے تم
کہ یہ مصرع نہیں شعلہ ہے صاحب
بجا فرما رہے ہیں آپ یعنی
ہمیں کچھ اور ہی سودا ہے صاحب
اسے دیوارِ گریہ ہی سمجھئیے
جنابِ میر کا حجرہ ہے صاحب
خدا کی شان ہے، جو تیرے آگے
اگر یہ آینہ زندہ ہے صاحب
اب ایسے بھی تو لا وارث نہیں ہم
ہمارا بھی کوئی اپنا ہے صاحب
اسے خط میں فقط اتنا لکھا ہے
ترے بن جی نہیں لگتا ہے صاحب
تو یہ بھی کوئی چالاکی ہے اس کی؟
اگر وہ ان دنوں تنہا ہے صاحب؟
چلو جھوٹا سہی لیکن یہ جھوٹا
ترے ’’سچوں‘‘ سے تو اچھا ہے صاحب
تو ظاہر ہے کہ پھر تیکھا تو ہو گا
علی زریون کا لہجہ ہے صاحب