AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Monday 30 April 2018

پیر زادہ قاسم

درد ہے کہ نغمہ ہے فیصلہ کیا جائے
یعنی دل کی دھڑکن پر غور کر لیا جائے

آپ کتنے سادہ ہیں چاہتے ہیں بس اتنا
ظُلم کے اندھیرے کو رات کہہ لیا جائے

آج سب ہیں بے قیمت گریہ بھی تبسّم بھی
دل میں ہنس لیا جائے دل میں رو لیا جائے

بے حسی کی دنیا سے دو سوال میرے بھی
کب تلک جیا جائے اور کیوں جیا جائے

داستاں کوئی بھی ہو جو بھی کہنے والا ہو
درد ہی سُنا جائے درد ہی کہا جائے

اب تو فقر و فاقہ کی آبرُو اِسی سے ہے
تار تار دامن کو کیوں بھلا سِیا جائے

اسلم انصاری

خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا
اسلم انصاری
خفا نہ ہو کہ ترا حسن ہی کچھ ایسا تھا
میں تجھ سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز
پلٹ کے دیکھ تو لے منظر شکست وفا

تو خواب تھا تو مجھے نیند سے جگایا کیوں
تو وہم تھا تو مرے ساتھ ساتھ کیوں نہ چلا

کہاں کہاں لیے پھرتا کشاں کشاں مجھ کو
لپٹ گیا ہے مرے پاؤں سے مرا سایہ

ہوا چلی ہے کہ تلوار سی چلی ہے ابھی
لہو میں ڈوب گیا شاخ شاخ کا چہرہ

دمک اٹھی ہیں جبینیں مرے خیالوں کی
لپک گیا ہے کہیں تیری یاد کا شعلہ

کسی کو خواہش دشت وجود ہی کب تھی
سنا فسانۂ ہستی تو پھر رہا نہ گیا

سنہری رت کے کسی نیلگوں تناظر میں
خط افق پہ وہ پیلا گلاب پھر نہ کھلا

Friday 27 April 2018

دو سطری

کہاں کسی سے محبت نبھانے والا ہوں
میں بد لحاظ بھی بالکل زمانے والا ہوں

Sunday 22 April 2018

دو سطری

میرے سارے سوال، شرمندہ!
اتنی حاضر جواب، خاموشی

Friday 20 April 2018

دو سطری

میں کیسے گفتگو سے غیر کو اپنا بناتا ہوں

ادھر آؤ، یہاں بیٹھو، تمھیں جادو سکھاتا ہوں

اسد ملتانی

اِن عَقل کے بَندوں میں آشفتہ سَری کیوں ہے
یہ تَنگ دِلی کیوں ہے یہ تنگ نظری کیوں ہے

اسرار اگر سمجھے دنیا کی ہر اِک شے کے
خود اپنی حقیقت سے یہ بے خبری کیوں ہے

سو جلوے ہیں نظروں سے مانندِ نظر پِنہاں
دعوائے جہاں بینی اے دیدہ وَری کیوں ہے

حَل جن کا عَمل سے ہے پیکار و جَدل سے ہے
ان زِندہ مسائل پر بحث نظری کیوں ہے

تُو دیکھ ترے دِل میں ہے سوزِ طلب کِتنا
مَت پوچھ دُعاؤں میں یہ بے اَثری کیوں ہے

اے گُل جو بہار آئی ہے وقتِ خود آرائی
یہ رَنگِ جُنوں کیسا یہ جامہ دَری کیوں ہے

واعظ کو جو عادت ہے پیچیدہ بیانی کی
حیراں ہے کہ رِندوں کی ہَر بات کَھری کیوں ہے

مِلتا ہے اِسے پانی اَشکوں کی رَوانی ہے
معلوم ہوا کھیتی زَخموں کی ہَری کیوں ہے

الفت کو اَسدؔ کتنا آسان سمجھتا ہے
اب نالۂ شب کیوں ہے آہِ سحری کیوں ہے

اسدؔ ملتانی

Wednesday 18 April 2018

دو سطری

میں اپنی ذات کے صحرا میں رہ گیا تنہا
پھر اس کے بعد مجھے شاعری کا شوق ہوا

Sunday 15 April 2018

آنکھیں

جھانک  لیتی  ہیں  دل  کے اندر تک
جب  بھی  مِلتی  ہیں باہمی آنکھیں

اِک   غزل   آج   اُن   پہ   کہہ   ڈالوں
کہہ رہی ہیں وہ   جھیل سی آنکھیں۔

Tuesday 10 April 2018

دو سطری

گھر سے نکلو کہ یہی شرطِ وفا ہے محسن
بے ہنر گوشہ نشیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلِ ہُنر آوارہ

Saturday 7 April 2018

دو سطری

بلایا ہے محبت نے سو اس کی اور جانا ہے

ذرا فرصت  ملے مجھ کو، مجھے لاہور جانا ہے!

Friday 6 April 2018

جگر مرادآبادی

جگرؔ مراد آبادی
۔۔۔۔
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرا کے پی گیا
زاہد، یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم، بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا

Monday 2 April 2018

استاد دامن

دَس کھاں شہر لہور اندر، کنِے بُوہے تے کنِیاں بارِیاں نیں؟
نالے دَس کھاں اوتھوں دِیاں اِٹاں، کنِیاں ٹٹُیاں تے کنِیاں سارِیاں نیں؟
دَس کھاں شہر لہور اندر کھُوہیاں کنِیاں مٹِھیاں تے کنِیاں کھارِیاں نیں؟
ذرا سوچ کے دیویں جواب مینوں، اوتھے کنِیاں ویاہیاں تے کنِیاں کنواریاں نیں؟

دَساں میں شہر لہور اندر، لکھاں بُوہے تے لکھاں ای بارِیاں نیں!
جنِہاں اِٹاں تے دھر گئے پیر عاشق، اوہی او ٹٹُیاں تے باقی سارِیاں نیں!
جنہاں کھُوہیاں توں بھرن معشوق پانی، اوہی او مٹِھیاں تے باقی کھارِیاں نیں!
تے جیہڑیاں بہندیاں اپنے نال سجناں دے، اوہی او ویاہیاں تے باقی کنواریاں نیں !

(استاد دامن)

احمد فراز

کروں نہ یاد مگر کس طرح بھلاؤں اسے
غزل بہا نہ کروں اور گنگناؤں اسے

وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے

یہ لوگ تذکرے کرتےہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں،اب کہاں سے لاؤں اسے

مگر وہ زود فراموش ، زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے ، اگر یاد کچھ دلاؤں اسے

وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو ، گنواؤں اسے

جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے

Sunday 1 April 2018

دو سطری

چاند چہرہ حجاب آنکھیں ہیں

کتنی وہ لاجواب آنکھیں ہیں

مرزا رفیع سودا

بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
قاتل ہماری نعش کو تشہیر ہے ضرور
آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے
اتنا لکھائیو مرے لوحِ مزار پر
یاں تک نہ ذی حیات کو کوئی خفا کرے
بلبل کو خونِ گُل میں لٹایا کروں، مجھے
نالے کی گر چمن میں تُو رخصت دیا کرے
فکرِ معاش و عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کِیا کرے
عالم کے بیچ پھر نہ رہے رسمِ عاشقی
گر نیم لب کوئی ترے شکوے سے واکرے
گر ہو شراب و خلوت و محبوبِ خوب رو
زاہد قسم ہے تجھ کو، جو تُو ہو تو کیا کرے؟
تعلیمِ گریہ دُوں اگر ابرِ بہار کو
جز لختِ دل صدف میں نہ گوہر بندھا کرے
تنہا نہ روزِ ہجر ہی سودا پہ ہے ستم
پروانہ ساں وصال کی ہر شب جلا کرے
(مرزا رفیع سودا)