AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Wednesday 31 October 2018

کرشن بہاری نور


زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جُرم ہے پتا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
زندگی! موت تیری منزل ہے
دُوسرا کوئی راستا ہی نہیں
جس کے کارن فساد ہوتے ہیں
اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں
زندگی! اب بتا کہاں جائیں
زہر بازار میں ملا ہی نہیں
دھن کے ہاتھوں بکے ہیں سب قانون
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں
چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں
اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے
نُورؔ! سنسار سے گیا ہی نہیں

کرشن بہاری نور

Saturday 27 October 2018

بیخود دہلوی

اُس سے حالِ تباہ کیا کہنا،
جو کہے سُن کے واہ کیا کہنا
بیخود دہلوی ؔ

Thursday 25 October 2018

بیدم وارثی

سراج الشعراء بیدم وارثی

تیغ کھینچی اس نے اور تیور بدل کر رہ گیا
آج بھی شوقِ شہادت ہاتھ مل کر رہ گیا

نزع میں بیمار کروٹ بدل کر رہ گیا
جب کہا اس نے سنبھل سنبھلا سنبھل کر رہ گیا

طفلِ اشک آنکھوں سے نکلا خون دل کے ساتھ ساتھ
ان کے دامن پر پڑا مچلا مچل کر رہ گیا

میرے آغوشِ تصور سے نکلنا ہے محال
اب خیالِ یار تو سانچے میں ڈھل کر رہ گیا

آتشِ رشک و حسد سے سنگ بھی خالی نہیں
دید موسیٰؑ کو ہوئی اور طور جل کر رہ گیا

اک ہمارا دل کہ محوِ لذتِ دیدارِ شمع
ایک پروانہ کہ دیکھا اور جل کر رہ گیا

رازِ دل کا پردہ رکھا رعبِ حسن یار نے
حرفِ مطلب منہ سے نکلا اور نکل کر رہ گیا

یادِ جاناں میں تری شعلہ مزاجی کے نثار
دل میں جو کچھ تھا سوا تیرے وہ جل کر رہ گیا

جاں نثاروں کا تھا آج اس درجہ مقتل میں ہجوم
خنجرِ قاتل بھی دو اک ہاتھ چل کر رہ گیا

سوز و سازِ عشق کا انجام بیدؔم دیکھ لو
شمع ٹھنڈی ہو گئی پروانہ جل کر رہ گیا

عدیم ہاشمی

سرخئ وصل پسِ دیدہ تر پانی میں
کہاں دیکھے تھے عدیم اتنے شرر پانی میں
ڈوبتے یوں ہی نہیں دیدۂ تر پانی میں
یہی آنسو ہیں جو بنتے ہیں گہر پانی میں
پوچھ آہوں سے، ہواؤں میں تپش کیسی ہے
آنسوؤں نے تو کیا سارا سفر پانی میں
کیا خبر تھی تری آنکھوں میں بھی دل ڈوبے گا
میں تو سمجھا تھا کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
کشتئ دل نے کیا رقص بڑی دیر کے بعد
دیر کے بعد ہی ناچے ہیں بھنور پانی میں
اشک پلکوں پہ جو ٹھہرے ہیں تو حیرت کیسی؟
ساحلی لوگ بنا لیتے ہیں گھر پانی میں
آب دیدہ سی ملاقات ہوئی ہے تجھ سے
عکس آیا ہے ترا مجھ کو نظر پانی میں
لمس تالاب میں ہاتھوں کا قیامت نکلا
آگ سے بڑھ کے ہوا اس کا اثر پانی میں
دل کے دریا میں لگایا تھا تمنا کا شجر
گر کے بہتا ہی رہا سارا ثمر پانی میں
فرق اتنا سا ہے اس شخص میں اور مجھ میں عدیمؔ
وہ کنارے پہ اُدھر، میں ہوں اِدھر پانی میں

Wednesday 24 October 2018

ہادی مچھلی شہری

ہادیؔ مچھلی شہری

اٹھنے کو  تو اٹھا ہوں محفل سے  تری  لیکن
اب  دل کو یہ دھڑکا ہے جاؤں تو کدھر جاؤں

مرنا مری  قسمت  ہے  مرنے  سے  نہیں  ڈرتا
پیمانۂ   ہستی    کو    لبریز   تو    کر   جاؤں

تو اور مری ہستی میں اس طرح  سما  جائے
میں اور تری نظروں سے اس طرح اتر  جاؤں

دنیائے   محبت   میں   دشوار  جو  جینا  ہے
مر کر ہی سہی آخر کچھ  کام  تو  کر  جاؤں

Saturday 20 October 2018

جلال لکھنوی

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا

گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلفِ یار کی بو
پھری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا

چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا

خبر کو یار کی بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواسِ رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا

جلالؔ باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا

جلالؔ لکھنوی

Friday 19 October 2018

اسرار الحق مجاز


تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعئ کرم فرما بھی گئے
اس سعئ کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے

آشفتگیٔ وحشت کی قسم حیرت کی قسم حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ہم راز تبسم پا بھی گئے

روداد غم الفت ان سے ہم کیا کہتے کیوں کر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

ارباب جنوں پر فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزری
آئے تھے سواد الفت میں کچھ کھو بھی گئے کچھ پا بھی گئے

یہ رنگ بہار عالم ہے کیوں فکر ہے تجھ کو اے ساقی
محفل تو تری سونی نہ ہوئی کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفل کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

Thursday 18 October 2018

اسرار الحق مجاز

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
اسرار الحق مجاز
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈا کرے کوئی

تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا
کس دل سے آہ ترک تمنا کرے کوئی

دنیا لرز گئی دل حرماں نصیب کی
اس طرح ساز عیش نہ چھیڑا کرے کوئی

مجھ کو یہ آرزو وہ اٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی

رنگینی نقاب میں گم ہو گئی نظر
کیا بے حجابیوں کا تقاضا کرے کوئی

یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو
یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی

ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجازؔ
اتنا نہ اہل عشق کو رسوا کرے کوئی

Wednesday 17 October 2018

حافظ شیرازی

گفتی کہ بہ مہ نَظَر کُن و انگار مَنَم
روئے تو ام آرزوست مہ را چہ کُنَم
مہ چُوں تو کُجا بُود کہ اندر ماھے
یک شب چو رُخَت باشد و باقی چو تَنَم

(حافظ شیرازی)

تو نے کہا کہ چاند کو دیکھ لوں اور سمجھ لے کہ میں ہوں۔ (لیکن) مجھے تو تمھارے چہرے کی آرزو ہے میں چاند کو کیا کروں۔ چاند تجھ جیسا کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ تو ایک مہینے میں، (صرف) ایک رات (چودھویں کی) تمھارے چہرے کی طرح ہوتا ہے اور باقی راتوں میرے جسم کی طرح (نحیف و نزار و لاغر)۔

Tuesday 16 October 2018

خمار بارہ بنکوی

وہ کون ہیں جو غم کا مزہ جانتے نہیں
بس دُوسروں کے درد کو پہچانتے نہیں

اِس جبرِ مصلحت سے تو رُسوائیاں بھلی
جیسے کہ ہم اُنھیں وہ ہمیں جانتے نہیں

کمبخت آنکھ اُٹھی نہ کبھی اُن کے رُوبرُو
ہم اُن کو جانتے تو ہیں، پہچانتے نہیں

واعظ خُلوص ہے تِرے اندازِ فکر میں
ہم تیری گفتگو کا بُرا مانتے نہیں

حد سے بڑھے توعلم بھی ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں، وہ کچھ جانتے نہیں

رہتے ہیں عافیّت سے وہی لوگ اے خمار
جو زندگی میں دل کا کہا مانتے نہیں

Monday 15 October 2018

سید ہمایوں مرزا حقیر

چشمِ مخمور سے بیخود جو نہ ہو جاتے ہم
دل کو آتشکدہ اور چشم کو دریا کرتے

کر کے بسمل جو ہمیں چھوڑ دیا قاتل نے
ہم تڑپتے کہ اسے دیکھتے کیا کیا کرتے

سید ہمایوں میرزا حقیر

Sunday 14 October 2018

علی زریون

حالت جو ہماری ہے تمہاری تو نہیں ہے
ایسا ہے تو پھر یہ کوئی یاری تو نہیں ہے
جتنی بھی بنا لی ہو، کما لی ہو یہ دنیا
دنیا ہے تو پھر دوست ! تمہاری تو نہیں ہے
تحقیر نہ کر ! یہ مِری اُدھڑی ہُوئی گدڑی
جیسی بھی ھے اپنی ہے ادھاری تو نہیں ہے
یہ تُو جو محبت میں صلہ مانگ رہا ہے
اے شخص تو اندر سے بھکاری تو نہیں ہے ؟
میں " ذات" نہیں، بات کے نشّے میں ہوں پیارے
اس وقت مجھے تیری خماری تو نہیں ہے
تنہا ہی سہی ، لڑ تو رہی ہے وہ اکیلی
بس تھک کے گری ہے ابھی ہاری تو نہیں ہے
مجمع سے اُسے یوں بھی بہت چڑ ہے کہ زریون
عاشق ہے مری جان ! مداری تو نہیں ہے
علی زریون

شاکر شجاع آبادی

اساں شاکر __ لوگ آوارہ جئے
ساکوں پیار نہ کر برباد ہو سی

Saturday 13 October 2018

پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی

بے خودی میں نہ رہی ہم کو نصیر اپنی خبر
ہوش آیا تو ہمیں جلوہءِ جاناں نکلے

Tuesday 9 October 2018

سعود عثمانی

جانا انجانا

یہ جان رکھنا کہ زندگی کی ہر ایک ساعت رواں دواں ہے
یہ دھیان رکھنا
کہ چند لمحوں کی یہ رفاقت بس ایک چھوٹی سی داستاں ہے
یہ ختم ہوگی تو یوں لگے گا کہ جیسے دھندلا سا خواب کوئی
نظر کی حد پر سراب کوئی
ذرا یہ سوچو کہ حافظے کا کھلا سمندر
نہ جانے کتنے رفیق و ہمدم سمو چکا ہے
رفیق چہرے جو نام تک اپنے کھو چکے ہیں
وہ سارے ساتھی جو اب فراموش ہوچکے ہیں

بھلا ہی دینا اگر یونہی وقت کا عمل ہے
تو یہ اٹل ہے
کہ مدتوں بعد یوں بھی ہوگا
اگر سرِ راہ اتفاقاً کبھی جو ہم تم کہیں ملیں گے
تو اپنے دل میں یہی کہیں گے
کہ اِس کا چہرہ تو آشنا تھا
خبر نہیں اس کا نام کیا تھا
یہ شخص جانے کہاں ملا تھا

(سعود عثمانی )

Saturday 6 October 2018

علی زریون

یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب
نہیں لگتا، مگر دھوکا ہے صاحب
یہ چرچا جو ہمارے نام کا ہے
تمھارے عشق کا صدقہ ہے صاحب
ابھی پرہیز رکھئے گفتگو سے
زوالِ عصر کا لمحہ ہے صاحب
طبیعت میں ذرا گرمی ہے اس کی
مگر وہ آدمی ہیرا ہے صاحب
تمھارے ہاں نہیں ہوتا ہے جو کچھ
ہمارے ہاں وہی ہوتا ہے صاحب
بچشمِ خشک مت پڑھنا اسے تم
کہ یہ مصرع نہیں شعلہ ہے صاحب
بجا فرما رہے ہیں آپ یعنی
ہمیں کچھ اور ہی سودا ہے صاحب
اسے دیوارِ گریہ ہی سمجھئیے
جنابِ میر کا حجرہ ہے صاحب
خدا کی شان ہے، جو تیرے آگے
اگر یہ آینہ زندہ ہے صاحب
اب ایسے بھی تو لا وارث نہیں ہم
ہمارا بھی کوئی اپنا ہے صاحب
اسے خط میں فقط اتنا لکھا ہے
ترے بن جی نہیں لگتا ہے صاحب
تو یہ بھی کوئی چالاکی ہے اس کی؟
اگر وہ ان دنوں تنہا ہے صاحب؟
چلو جھوٹا سہی لیکن یہ جھوٹا
ترے ’’سچوں‘‘ سے تو اچھا ہے صاحب
تو ظاہر ہے کہ پھر تیکھا تو ہو گا
علی زریون کا لہجہ ہے صاحب

Friday 5 October 2018

جون ایلیاء

خود کو ڈانٹوں گا ساری باتوں پہ
جانے کس بات پر خفا ہے وہ۔ ۔ ۔