فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
فصل گل خاک ہوئی جب تو صدا دی تو نے
اے گل تازہ بہت دیر لگا دی تو نے
کوئی صورت بھی رہائی کی نہیں رہنے دی
ایسی دیوار پہ دیوار بنا دی تو نے
ہر گز مجھے قبول نہیں ضد تری کہ میں
خود داریوں کو بیچ کر پاس وفا کروں
یہ سر مجھے عزیز ہے عزت کی حد تلک
عزت نہیں تو سر کا میں گردن پہ کیا کروں
به غم کسی اسیرم که ز من خبر ندارد
عجب از محبت من که در او اثر ندارد
غلط است هر که گوید که به دل رهست دل را
دل من ز غصه خون شد دل او خبر ندارد
وحشی بافقی
احمد ندیم قاسمی
گلی کے موڑ پہ بچوں کے ایک جمگھٹ میں
کسی نے درد بھری لے میں ماہیا گایا
مجھے کسی سے محبت نہیں مگر اے دل
یہ کیا ہوا کہ تو بے اختیار بھر آیا
آپ کو کیا خبر محبت کی
ہونے والوں کو ہو گئی ہو گی
عشق پانی پہ چل رہا ہو گا
عقل کشتی بنا رہی ہو گی
بڑا پُر فریب ہے شہد و شِیر کا ذائقہ
مگر ان لبوں سے ترا نمک تو نہیں گیا
یہ جو اتنے پیار سے دیکھتا ہے تُو آج کل
مرے دوست تُو کہیں مجھ سے تھک تو نہیں گیا
حافی
جھکتی پلکوں کی احتیاط سمجھ
خامشی کر رہی ہے بات سمجھ
اک جھلک جس نے دیکھنا ہے تجھے
اُس کی آنکھوں کی مشکلات سمجھ
عائشہ ایوب
پَت جھڑ کی برسات ہو جیسے
ایسی اُس کی باتیں تھیں
جھیل سمجھ رہے تھے جن کو
وہی تو اُس کی آنکھیں تھیں
چشمِ مخمور سے بیخود جو نہ ہو جاتے ہم
دل کو آتشکدہ اور چشم کو دریا کرتے
کر کے بسمل جو ہمیں چھوڑ دیا قاتل نے
ہم تڑپتے کہ اسے دیکھتے کیا کیا کرتے
سید ہمایوں میرزا حقیر
کون آتا ہے زمانے کی گھڑی باتوں میں
چاہنے والے تو گمراہ نہیں ہو سکتے
تو نے کوشش تو بہت کی ہے مصنف ! لیکن
ہم کہانی میں بھی ہمراہ نہیں ہوسکتے....