AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Saturday 30 June 2018

دوسطری

میں اس کے پاس کبھی دیر سے گیا ہی نہیں
اسے پتہ ہی نہیں کیا ہے انتظار کا دکھ

تہذیب حسن

دو سطری

تیرے چہرے کےنقش ایسے ھیں
آنکھ اٹھاتا ھوں بھٹک جاتا ھوں

دو سطری

کیا تعلق ھے میری جاں !! جو نہیں ھے تجھ سے
تو میرا دوست بھی ھے ، یار بھی ھے ، عشق بھی ھے

Friday 29 June 2018

جمیل الدین عالی

ﺧﺪﺍ  ﮐﮩﻮﮞ  ﮔﺎ  تمہیں،  ﻧﺎﺧﺪﺍ   ﮐﮩﻮﮞ  ﮔﺎ   تمہیں
ﭘﮑﺎﺭﻧﺎ  ﮨﯽ  ﭘﮍﮮ   ﮔﺎ  ﺗﻮ   ﮐﯿﺎ   ﮐﮩﻮﮞ   ﮔﺎ  تمہیں

ﻣﺮﯼ   ﭘﺴﻨﺪ    ﻣﺮﮮ    ﻧﺎﻡ     ﭘﺮ    ﻧﮧ   ﺣﺮﻑ  ﺁﺋﮯ
ﺑﮩﺖ   ﺣﺴﯿﻦ   ﺑﮩﺖ   ﺑﺎ    ﻭﻓﺎ   ﮐﮩﻮﮞ   ﮔﺎ  تمہیں

ﮨﺰﺍﺭ   ﺩﻭﺳﺖ    ﮨﯿﮟ،  ﻭﺟﮧِ   ﻣﻼﻝ    ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ  ﮔﮯ
ﺳﺒﺐ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ تمہی ﮨﻮ، ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ  تمہیں

ﺍﺑﮭﯽ   ﺳﮯ   ﺫﮨﻦ   ﻣﯿﮟ    ﺭﮐﮭﻨﺎ    ﻧﺰﺍﮐﺘﯿﮟ  ﻣﯿﺮﯼ
ﮐﮧ   ﮨﺮ   ﻧﮕﺎﮦِ   ﮐﺮﻡ    ﭘﺮ   ﺧﻔﺎ   ﮐﮩﻮﮞ   ﮔﺎ  تمہیں

ﺍﺑﮭﯽ  ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯾﻮﮞ  ﮐﻮ  ﺳﻮﭺ  ﺭﮐﮭﻮ
ﮐﮧ   ﺗﻢ   ﻣﻠﻮ   ﻧﮧ   ﻣﻠﻮ   ﻣُﺪﻋﺎ   ﮐﮩﻮﮞ   ﮔﺎ   تمہیں

ﺍﻟﺠﮫ     ﺭﮨﺎ    ﮨﮯ   ﺗﻮ    ﺍﻟﺠﮭﮯ   ﮔﺮﻭﮦِ    ﺗﺸﺒﯿﮩﺎﺕ
ﺑﺲ ﺍﻭﺭ  ﮐﭽﮫ  ﻧﮧ ﮐﮩﻮﮞ  ﮔﺎ  ﺍﺩﺍ  ﮐﮩﻮﮞ  ﮔﺎ  تمہیں

ﻗﺴﻢ  ﺷﺮﺍﻓﺖِ  ﻓﻦ  ﮐﯽ  ﮐﮧ  ﺍﺏ  ﻏﺰﻝ  ﻣﯿﮟ  ﮐﺒﮭﯽ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ   ﻧﺎﻡ  ﻧﮧ  ﻟﻮﮞ   ﮔﺎ   ﺻﺒﺎ   ﮐﮩﻮﮞ   ﮔﺎ  تمہیں

جمیل الدین عالیؔ

Wednesday 20 June 2018

واصف علی واصف

مستی مئے عِرفاں کی کم ہو نہی سکتی
بے کیف کبھی وادئ غم ہو نہی سکتی

لیلیٰ کا فُسُوں کہیے کہ وحشت کا تقاضا
ویرانوں کی رونق کبھی کم ہو نہی سکتی

کُچھ پایا ہے یا کھویا ہے سب تیری عطا ہے
ہم خوش ہیں کہ توصیفِ کرم ہو نہی سکتی

جِن راہوں سے ہم گُزرے ہیں چراغاں ہی کِیا ہے
پروانوں کی راہ، راہِ عدم ہو نہی سکتی

اعلانِ اناالحق سے کُھلا راز یہ واصفؔ
واصِل جو کرے موت سِتم ہو نہی سکتی۔۔۔!

حضرت واصف علی واصفؒؔ

Tuesday 19 June 2018

امیر خسرو

بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پاینده باشی 
تیرے خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا ہے ملک حسن پہ تیری بادشاہی سلامت رہے

من درویش را کشتی بہ غمزہ 
کرم کردى الٰہی زندہ باشی
تیری قاتلانہ نگاہ نے مجھ غریب کو مار ڈالا کرم کیا تو نے خدا تجھے بسر زندگی دے

جہاں سوزى اگر در غمزہ آىى
شکر ریزی اگر در خندہ باشی
تمہاری نکاہِ ناز سے نظامِ دنیا بدل جاتا ہے اور تمہاری مسکراہٹ سے مٹھاس بکھر جاتی ہے

ز قید دو جہاں آزاد گشتم 
اگر تو ھم نشینِ بندہ باشى
میں دونوں جہانوں کی قید سے آزاد ہو جاؤں اگر کبھی تو میرے ہمسفر ہو جائے

جفا کم کن کہ فردا روزِ محشر
زروی عاشقان شرمندہ باشی
جفا کم کرو کے کل قیامت کے دن کہیں عاشقوں کے آسامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے

بہ رندی و بہ شوخی ہمچو خسروؔ
ھزاران خان و مان برکندہ باشی
تمہاری شوخی اور زندہ دلی کے باعث خسرو جیسے ہزاروں دل تباہ ہو گئے


امیر خسروؔ​


فیض احمد فیض

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے 
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

Monday 18 June 2018

مولوی محمد عبد الرشید فاروقی

کبوتر سے مرے نامہ کو لیکر اس طرح بگڑے
چُھری کو پھیر کر گردن پہ خون تلوؤں سے ملتے ہیں
بھلا یہ اور قدم رکھیں گے بڑھ کر کوئے قاتل میں
اجل کا نام سن کر دل رقیبوں کے دہلتے ہیں
مولوی محمد عبدالرشید فاروقی
رشیدؔ حیدر آبادی

سرفراز آرش

خوشی کا دن ہے مگر پاس تو نہیں میرے
سو ایسی عید پہ ہنسنا بھی عین اداسی ہے !

سرفراز آرش

ابراہیم ذوق

ساقیا عید ہے، لا بادے سے مینا بھر کے
کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے
آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم
تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے
عقدِ پرویں ہے کہ اس حقۂ پرویں میں مَلَک
لاتے ہیں اُس رخِ روشن سے پسینا بھر کے
دل ہے، آئینہ صفا چاہیے رکھنا اِس کا
زنگ سے دیکھ نہ بھر اس میں تو کینا بھر کے
روز اس گلشنِ رُخسار سے لے جاتے ہیں گُل
اپنے دامانِ نظر، مردمِ بینا بھر کے
خُمِ پُر جوش کے مانند چھلکتا ہے مدام
خونِ حسرت سے لبوں تک مرا سینا بھر کے
جام خالی بھی لگا منہ سے نہ کم ظرف کے ساتھ
ذوقؔ کے ساتھ، قدح ذوقؔ سے پینا بھر کے
(شیخ ابراہیم ذوقؔ)

نا معلوم


سنو محبت کے صاف منکر


بجا کہا کہ کہیں نہیں ہوں


تمہارے دل کے کسی بھی گوشے میں یاد بن کر


نہیں ہوں اب میں


غبارِ ہجراں کے سلسلوں نے


وصال رُت کی تمام یادیں


تمہارے دل سے دھکیل دی ہیں


مگر میری جاں


سمے ملے تو یہ غور کرنا


تمہاری آنکھوں کی سرحدوں میں


ابھرنے والی ہر ایک نس پر


یہ سرخ ڈورا جو بن رہا ہے


لہو نہیں ہے


وہ میں ہوں جاناں


کہ جس لہو کو طواف کر کے


تمہارے دل میں ہی لوٹنا ہے


پنجابی شاعری

لطف سجن دم بدم، کارِ سجن گاہ گاہ
اِنج وی سجن واہ واہ، اُنج وی سجن واہ واہ

قمر جلالوی

کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں

جفاؤں کے گِلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں

دھری رہ جائے گی پابندیٔ زنداں، جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھادو کہ دیوانے بہت سے ہیں

بس اب سوجاؤ نیند آنکھوں میں ہے، کل پھر سنائیں گے
ذرا سی رہ گئی ہے رات، افسانے بہت سے ہیں

تمہیں کس نے بلایا، مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ مے خانے بہت سے ہیں

بڑی قربانیوں کے بعد رہنا باغ میں ہوگا
ابھی تو آشیاں بجلی سے جلوانے بہت سے ہیں

لکھی ہے خاک اڑانی ہی گر اپنے مقدر میں
ترے کوچے پہ کیا موقوف، دیوانے بہت سے ہیں

نہ رو اے شمع! موجودہ پتنگوں کی مصیبت پر
ابھی محفل سے باہر تیرے پروانے بہت سے ہیں

مرے کہنے سے ہوگی ترکِ رسم و راہ غیروں سے
بجا ہے، آپ نے کہنے میرے مانے بہت سے ہیں

قمر! اللہ ساتھ ایمان کے منزل پہ پہنچادے
حرم کی راہ میں سنتے ہیں بت خانے بہت سے ہیں

(قمر جلالوی)

Sunday 17 June 2018

چراغ حسن حسرت

آؤ حسن یار کی باتیں کریں


زلف کی رخسار کی باتیں کریں


زلف عنبر بار کے قصے سنائیں


طرۂ طرار کی باتیں کریں


پھول برسائیں بساط عیش پر


روز وصل یار کی باتیں کریں


نقد جاں لے کر چلیں اس بزم میں


مصر کے بازار کی باتیں کریں


ان کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں


سایۂ دیوار کی باتیں کریں


آخری ساعت شب رخصت کی ہے


آؤ اب تو پیار کی باتیں کریں


دو سطری

نگاہوں کے تقاضے  چین سے مرنے  نہیں دیتے
یہاں منظر ہی ایسے ہیں کہ دل بھرنے نہیں دیتے

ساغر صدیقی

چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند


اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند


ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے


اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چھپا عید کا چاند


جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں


جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند


دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے


غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند


لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے


آج بھی خلد کی رنگین فضا عید کا چاند


تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں


گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند


چشم تو وسعت افلاک میں کھوئی ساغرؔ


دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند


پروین شاکر

کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا

زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا

اُس کو بھی ہم تیرے کُوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا

اُس کا انداز سُخن سب سے جُدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مُکرنے والا

شام ہونے کو ہے اورآنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اِس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا

دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بِکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا

اِسی اُمّید پہ ہر شام بُجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سرِ بام اُبھرنے والا

Saturday 16 June 2018

مریضِ محبت

مریضِ محبت کو فقط دیدار کافی بے
ہزاروں طب کے نسخوں سے نگاہِ یار کافی ہے

عید

اپنا تو کسی طور سے کٹ جائے گا یہ دن

تم جس سے ملو آج اسے عید مبارک

علی جواد زیدی

تیرے ہلکے سے تبسم کا اشارا بھی تو ہو
تا  سرِ دار  پہنچنے کا  سہارا  بھی  تو ہو

شکوہ و طنز سے بھی کام نکل جاتے ہیں
غیرتِ عشق کو  لیکن یہ گوارا  بھی تو ہو

مے کشوں میں نہ سہی تشنہ لبوں میں ہی سہی
کوئی گوشہ تری محفل میں ہمارا بھی تو ہو

کس طرف موڑ دیں ٹوٹی ہوئی کشتی اپنی
ایسے طوفاں میں کہیں کوئی کنارا بھی تو ہو

ہے  غمِ  عشق  میں  اک  لذتِ جاوید  مگر
اس غمِ دہر سے اے دل کوئی چارا بھی تو ہو

مے کدے بھر پہ ترا حق ہے، مگر پیرِ مغاں!!
اک کسی چیز پہ رندوں کا اجارا بھی تو یو

اشکِ خونیں سے جو سینچے تھے بیاباں ہم نے
اُن میں اب لالہ و نسریں کا نظارا بھی تو ہو

جام ابل پڑتے ہیں، مے لٹتی ہے، خم ٹوٹتے ہیں
نگۂ  ناز  کا  درپردہ  اشارا  بھی  تو  ہو

پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن
دل پہ قابو بھی تو ہو، ضبط کا یارا بھی تو ہو

آپ  اس  وادئ  ویراں  میں  کہاں آ  پہنچے
میں گنہ گار، مگر میں نے  پکارا بھی  تو  ہو

(علی جواد زیدی)

قابل اجمیری

جنوں کا کون سا عالم ہے یہ خدا جانے
تجھے بھی بھولتے جاتے ہیں تیرے دیوانے

چراغِ طور ہے روشن، نہ آتشِ نمرود
اب اپنی آگ میں خود جل رہے ہیں پروانے

نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا
بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے

مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے
زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے

اندھیری رات میں سونا ہی جس کی فطرت ہو
وہ صبحِ نو کے تقاضوں کو کس طرح جانے

Friday 15 June 2018

پنڈت جواہر ناتھ کول غمخوار ساقیؔ

وعدہ اُس مہ رُو نے آنے کا کِیا تھا چاند رات
وہ نہ آیا ہے یہ ظُلمت جلوہ تِرا چاند رات

خُوبیِ قِسمت سے تکرارِ تجلّی ہوگئی
ہوگیا اُس ماہ کا جلوہ دوبارا چاند رات

ہم جو شیداۓ گُلِ رخسار ہیں اُس ماہ کے
کر رہے ہیں جلوہِ گُل کا نظارا چاند رات

جاں بلب ہوکر یہ کاٹے ہم نے ایامِ فِراق
شُکر ہے دِل ساز ہے وہ ماہ پارا چاند رات

رشکِ مہتاب آگیا ساقیؔ تجلّی ہوگئی
دیکھ لے یہ بھی مِری آنکھوں کا تارا چاند رات۔۔۔!

پنڈت جواہر ناتھ کول غمخوار ساقیؔ

سرائیکی عید شاعری

ڈسو عید تے تُحفہ کیا گِھنسو؟
چھلا مُندری یا میں ھار ڈیواں؟
یا جگر چوں کڈھ کے رَت ڈیواں؟
یا جَھنگ دی وَنگ سرکار ڈیواں؟
دل پہلے ای تیڈے کول ھے سئیں!!
ڈَسو ھور میں کتنا پیار ڈیواں؟
ھِک جِندڑی باقی کول ھے پئی!!
کرو حُکم تاں اوہ وی وار ڈیواں؟؟

Thursday 14 June 2018

علی زریون

ہر اک جابر سے انکاری رہے گی
محبت حمد ہے جاری رہے گی !

یونہی نادِ علی پڑھتا رہوں گا
میری للکار دو دھاری رہے گی !

ہم ایسے کہنے والے جب تلک ہیں
غزل بندوق پر بھاری رہے گی !

علی اک شعر ایسا سن لیا ہے
کئی دن تک تو سرشاری رہے گی !

Tuesday 12 June 2018

انور مسعود

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے

تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

تجھے نہیں ہے ابھی فرصتِ کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے

انور مسعود

Monday 11 June 2018

عبیداللہ علیم


میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں

Sunday 10 June 2018

بھگت کبیر

پاہن پوج ہر ملے تو میں پوجوں پہاڑ
تاکہ یہ چاکی بھلی پیس کھائے سنسار

Saturday 9 June 2018

احسان دانش

پُرسشِ غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں ​
تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں ​

دور تھا اک گزر گیا ، نشہ تھا اک اُتَر گیا ​
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بیرخی نہیں ​

تیرے سوا کروں پسند، کیا تری کائنات میں ​
دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمتِ بندگی نہیں ​

لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نہ وہ خدا دکھائے ​
جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں ​

دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی ​
فرصتِ مہ کشی تو ہے ، حسرتِ مہ کشی نہیں​

زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی ​
آہ نہ کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں ​

دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول ​
جیسے تری خزاں کے بعد ، دورِ بہار ہی نہیں

عرفان ستار

ملے گا کیا تجھے  اے  دل  یہ  تجربہ  کر  کے
ابھی تو  زخم  بھرے  ہیں  خدا  خدا  کر  کے

ہمیں بھی صبح جگاتی تھی آ کے  ایک  مہک
چمن میں کوئی ہمارا  بھی  تھا  صبا  کر  کے

سخن میں  تیرے  تغافل  سے  آ  گیا  یہ  ہنر
ذرا سا  غم بھی  سناتے  ہیں  سانحہ  کر  کے

ابھی  ہوئی  ہے  پلک  سے  پلک  ذرا  مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر  کے

اُداس تھے سو  ترے در  پہ آ  کے  بیٹھ  گئے
فقیر ہیں سو چلے  جائیں  گے  صدا  کر  کے

عرفانؔ ستار

مسعود ساگر

تم مجھے چھوڑ گئے تھے وہ تمھیں چھوڑ گیا
اسے کہتے ہیں مری جان مکافات کا دکھ

میری اطراف میں پھیلے ہوئے یہ جھوٹے لوگ
میری اطراف میں پھیلا ہوا سقراط کا دکھ

مسعود ساگر

جاوید اختر

بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
جاوید اختر
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
جو فصل خواب کی تیار ہے تو یہ جانو
کہ وقت آ گیا پھر درد کوئی بونے کا
یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے
خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا
ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے
وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا

Friday 8 June 2018

تیمور حسن تیمور

موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصّہ تو میں بھی ہوں

اے قہقہے بکھیرنے والے، تو خوش بھی ہے؟
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں

مجھ میں اور اُس میں صرف مقدّر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں

اُس کی تو سوچ، دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تو کس لئے اُداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں

اک ایک کر کے ڈوبتے تارے بھی بجھا کئے
مجھ کو بھی ڈوبنا ہے ستارہ تو میں بھی ہوں

اک آئینے میں دیکھ کے آیا ہے یہ خیال
میں کیوں نہ اُس سے کہہ دوں کہ تجھ سا تو میں بھی ہوں

Wednesday 6 June 2018

حافظ

Original:
به مژگان سیه کردی هزاران رخنه در دینم
بیا کز چشم بیمارت هزاران درد برچینم
الا ای همنشین دل که یارانت برفت از یاد
مرا روزی مباد آن دم که بی یاد تو بنشینم
جهان پیر است و بی‌بنیاد از این فرهادکش فریاد
که کرد افسون و نیرنگش ملول از جان شیرینم
ز تاب آتش دوری شدم غرق عرق چون گل
بیار ای باد شبگیری نسیمی زان عرق چینم
جهان فانی و باقی فدای شاهد و ساقی
که سلطانی عالم را طفیل عشق می‌بینم
اگر بر جای من غیری گزیند دوست حاکم اوست
حرامم باد اگر من جان به جای دوست بگزینم
صباح الخیر زد بلبل کجایی ساقیا برخیز
که غوغا می‌کند در سر خیال خواب دوشینم
شب رحلت هم از بستر روم در قصر حورالعین
اگر در وقت جان دادن تو باشی شمع بالینم
حدیث آرزومندی که در این نامه ثبت افتاد
همانا بی‌غلط باشد که حافظ داد تلقینم


 

Translation:

With your black eyelashes, you poked thousands of holes in my faith
Come, let me pick thousands of pains from your lovesick eyes.

O companion of the heart who has forgotten your friends
Let there be no day when I am without your memory.

The world is old and without foundation—Alas, the fraud and deceit
of this killer of Farhad has made me tired of my sweet life.

The fire of separation drowned me in sweat like the rose
O dawn wind, bring a breeze from the one who wipes my sweat.

I sacrifice the ephemeral and eternal worlds for the young beauty and the Saqi
for I see the sultanate of the world as a parasite of love.

If the Friend chooses another in my place, the choice is His
But God forbid that I choose my life in place of the Friend.

The nightingale sang good morning. Where are you, Saqi? Arise!
For the memory of last night’s dream clamors in my head.

On the night of death, I shall go from my bed to the huri’s palace
if I you are the candle at my bedside as I surrender my soul.

The story of longing that became recorded in this book
is wholly without fault, for Hafez taught it to me.

 


حافظ

Original:

من ترک عشق شاهد و ساغر نمی‌کنم
صد بار توبه کردم و دیگر نمی‌کنم
باغ بهشت و سایه طوبی و قصر و حور
با خاک کوی دوست برابر نمی‌کنم
تلقین و درس اهل نظر یک اشارت است
گفتم کنایتی و مکرر نمی‌کنم
هرگز نمی‌شود ز سر خود خبر مرا
تا در میان میکده سر بر نمی‌کنم
ناصح به طعن گفت که رو ترک عشق کن
محتاج جنگ نیست برادر نمی‌کنم
این تقویم تمام که با شاهدان شهر
ناز و کرشمه بر سر منبر نمی‌کنم
حافظ جناب پیر مغان جای دولت است
من ترک خاک بوسی این در نمی‌کنم



Translation:

I will not renounce love, the young beauty, and the cup of wine
I repented a hundred times and will do so no more.

The garden of paradise, the shade of Tuba, and the palace of heavenly maidens,
I will not compare them to the dust of the friend’s street.

The teaching and guidance of men of vision is but an allusion
I said this as a metaphor and will not repeat it again.

I am never conscious of my own head
until I raise it in the middle of a tavern.

The advisor tauntingly told me not to drink wine, it is forbidden.
I said alright. But I do not listen to every donkey.

The Shaykh told me angrily, “Stop falling in love!”
There is no need to quarrel, brother. I will not.

This much piety is enough for me that I do not wink at
the beautiful youths of the city from the top of the pulpit.

Hafez, the Magian Pīr’s side is a stately place
I will not give up kissing the dust of this door.

 

Monday 4 June 2018

سرائیکی

تیڈی عید دا جوڑا میں گھنساں
پر شرط ھے چاون آپ آویں

سرائیکی

تیکوں شوق اے ساکوں چھوڑن دا
اچھا عید نبھا وت چھوڑ ونجیں

Sunday 3 June 2018

ناصر کاظمی

تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں

خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں

یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں

ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشیوں کا انتظام کریں

رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ
متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں

Saturday 2 June 2018

علامہ شبلی نعمانی


تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں

پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں

اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں

کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں

اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں

جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسی کر لوں

دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلی
خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں۔۔۔!!