AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Wednesday 27 December 2017

عمیر نجمی

تم کو وحشت تو سکھا دی ہے، گزارے لائق
اور کوئی حکم؟  کوئی کام، ہمارے لائق؟

معذرت! میں تو کسی اور کے مصرف میں ہوں
ڈھونڈ دیتا ہوں مگر کوئی تمہارے لائق

ایک دو زخموں کی گہرائی اور آنکھوں کے کھنڈر
اور کچھ خاص نہیں مجھ میں نظارے لائق

گھونسلہ، چھاؤں، ہرا رنگ، ثمر، کچھ بھی نہیں
دیکھ! مجھ جیسے شجر ہوتے ہیں آرے لائق

دو وجوہات پہ اس دل کی اسامی نہ ملی
ایک) درخواست گزار اتنے؛ دو) سارے لائق

اس علاقے میں اجالوں کی جگہ کوئی نہیں
صرف پرچم ہے یہاں چاند ستارے لائق

مجھ نکمے کو چنا اس نے ترس کھا کے عمیر!
دیکھتے رہ گئے حسرت سے بچارے لائق

عمیر نجمی

Tuesday 26 December 2017

احمد فراز

اسی خیال سے تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں

اس اک چراغ کی لو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں

مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتبار نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں

جدا سہی میری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں

صداۓ غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
میرا وجود ہے پتھر جو لوٹ کر دیکھوں

وہ لب فراز اگر کر سکیں مسیحائی
بقولِ درد میں سو سو طرح سے مر دیکھوں

Sunday 24 December 2017

دسمبر

ﺁﺧﺮﯼ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﮯ
ﮨﺮ ﺑﺮﺱ ﮨﯽ ﮔﺮﺍﮞ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﮕﺎﺭ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﻤﺎﮞ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻓﺘﮕﺎﮞ ﮐﮯﺑﮑﮭﺮﺗﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻓﻮﻥ ﮐﯽ ﮈﺍﺋﺮﯼ ﮐﮯ ﺻﻔﺤﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﺘﻨﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ
ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺮﺑﻮﻁ ﺑﮯ ﻧﻮﺍ ﮔﮭﻨﭩﯽ
ﺍﺏ ﻓﻘﻂ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﭘﺮ
ﺭﯾﻨﮕﺘﯽ ﺑﺪﻧﻤﺎ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﺳﯽ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺩﻭﺭﯾﺎﮞ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﻋﮑﺲ
ﻣﺸﻌﻠﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﺟﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺣﺎﺩﺛﮯ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺟﯿﺴﮯ
ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﻧﺸﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ
ﭼﺎﮎ ﮐﯽ ﻻﺋﻨﯿﮟ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﺮ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ
ﮨﺮ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ
ﮈﺍﺋﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﺍﺱ ﺑﺮﺱ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﺗﮏ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻥ ﺑﮯ ﭼﺮﺍﻍ ﺻﻔﺤﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﺘﻨﮯ ﮨﯽ ﻧﺎﻡ ﮐﭧ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ
ﮐﺘﻨﮯ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﮑﮭﺮ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮔﺮﺩ ﻣﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﺍﭦ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ
ﺧﺎﮎ ﮐﯽ ﮈﮬﯿﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ
ﮐﺘﻨﮯ ﻃﻮﻓﺎﻥ ﺳﻤﭧ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ
ﮨﺮﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺭﻧﮓ ﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮﻧﺎ ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﮈﺍﺋﺮﯼ ،ﺩﻭﺳﺖ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﻧﮕﮯ
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺎﮐﺪﺍﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺮﺍ ﺳﺎ ﭘﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﻮﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮯ ﻧﺸﺎﮞ ﺻﻔﺤﻮﮞ ﺳﮯ
ﻧﺎﻡ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮭﯽ
ﮐﭧ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ !

Friday 15 December 2017

جمیل الدین عالی

ایک  عجیب  راگ  ہے،  ایک  عجیب  گفتگو
سات سروں کی آگ ہے، آٹھویں سر کی جستجو

بجھتے ہوئے مرے خیال، جن میں ہزارہا سوال
پھر سے بھڑک کے روح میں،پھیل گئے ہیں چار سو

تیرہ شبی پہ صبر تھا، سو وہ کسی کو بھا گیا
آپ  ہی آپ  چھا  گیا، ایک  سحابِ رنگ و بو

ہنستی ہوئی گئی ہے صبح، پیار سے آ رہی ہے شام
تیری  شبیہ  بن  گئی، وقت  کی  گرد  ہو بہو

پھر یہ تمام سلسلہ، کیا ہے، کدھر کو جائے گا؟
میری  تلاش  در بہ  در، تیرا  گریز  کو بہ کو

خون- جنوں تو جل گیا، شوق کدھر نکل گیا؟
سست ہیں دل کی دھڑکنیں، تیز ہیں نبضِ آرزو

تیرا  مرا  قصور  کیا،  یہ  تو  ہے  جبرِ ارتقا
بس وہ جو  ربط ہو گیا،  آپ ہی  پا گئی نمو

میں جو رہا ہوں بے سخن، یہ بھی ہے احترامِ فن
یعنی  مجھے  عزیز  تھی،  اپنی  غزل کی آبرو

جمیل الدین عالی

Wednesday 13 December 2017

‏ﺩﺍﻍؔ ﺩﮨﻠﻮﯼ

ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﻟﮕﺎ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﮐﮭُﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﻣﻼﻗﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﭼﻨﺪ ﻣﻼﻗﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺁﺯﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻏﯿﺮ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮐﯽ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮟ ﻇﺎﻟﻢ
ﮐﯿﺎ ﻣﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺍﺑﺮِ ﺭﺣﻤﺖ ﮨﯽ ﺑﺮﺳﺘﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ﺯﺍﮨﺪ
ﺧﺎﮎ ﺍﮌﺗﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﻧﮧ ﺧﺮﺍﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﯾﺎﺭﺏ ! ﺍﺱ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻻﺅﮞ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺍﻥ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﺑﮭﺮﯼ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺳﮯ ﺍﮮ ﺣﻀﺮﺕِ ﻧﺎﺻﺢ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ
ﻟﻄﻒ ﺍُﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍِﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺩﺳﺖِ ﺩﻋﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﺎﺋﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺟﻠﻮﮦٔ ﯾﺎﺭ ﺳﮯ ﺟﺐ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﻏﺶ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺭﻗﯿﺒﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ ﮨﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺍﯾﺴﯽ ﺗﻘﺮﯾﺮ ﺳﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﻮﺥ ﻭ ﺷﺮﯾﺮ
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻓﺘﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮨﻮﺍ، ﻏﯿﺮ ﺳﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮨﻮﺍ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺧﻮﺏ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﮨﻔﺖ ﺍﻓﻼﮎ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭُﻠﺘﺎ ﯾﮧ ﺣﺠﺎﺏ
ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺩﺷﻤﻦِ ﻋﺸّﺎﻕ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺘﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺟﻨﺎﺏِ ﻭﺍﻋﻆ
ﭼﻞ ﺩﺋﯿﮯ ﺁﭖ ﺗﻮ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﺻﻠٰﻮﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺮﺍ ﺩﻡ ﺑﮭﺮﺗﮯ
ﺟﻦ ﮐﯽ ﺷﮩﺮﺕ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﻣﺘﺎﻉِ ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﮞ
ﺍﯾﮏ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﻟُﭩﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺳﻮﻏﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺩﻝ ﮐﭽﮫ ﺁﮔﺎﮦ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺷﯿﻮﮦٔ ﻋﯿﺎﺭﯼ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭖ ﮨﻢ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺮﯼ ﮔﮭﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻭﺻﻞ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﮩﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ
ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍُﻥ ﮐﯽ ﻣﺪﺍﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻭﮦ ﮔﺌﮯ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺭﮨﮯ ﯾﺎﺩ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﮮ ﺩﺍﻍؔ
ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﺍﺏ ﺗﻮ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﻨﺎﺟﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ

‏ﺩﺍﻍؔ ﺩﮨﻠﻮﯼ 

Saturday 9 December 2017

پنڈت ہری چند اختر

سیرِ دنیا سے غرض تھی محوِ دنیا کر دیا
میں نے کیا چاہا مرے اللہ نے کیا کر دیا

روکنے والا نہ تھا کوئی خدا کو اس لیے
جو کچھ آیا اس کے جی میں بے محابا کر دیا

ہاں اسی کم بخت دل نے کر دیا افشائے راز
ہاں اسی کم بخت دل نے مجھ کو رسوا کر دیا

عشق جا ان تیری باتوں میں نہیں آنے کے ہم
اچھے اچھوں کو جہاں میں تو نے رسوا کر دیا

زندگی بیٹھی تھی اپنے حسن پر بھولی ہوئی
موت نے آتے ہی سارا رنگ پھیکا کر دیا

حسن نے پہلے تو سب مجھ پر حقیقت کھول دی
اور پھر خاموش رہنے کا اشارا کر دیا

حسن کو پہنا چکے جب خود نمائی کا لباس
عشق نے سر پیٹ کر پوچھا کہ یہ کیا کر دیا

پنڈت ہری چند اخترؔ

Tuesday 5 December 2017

پطرس بخاری

"دو راہہ"

یہ مَیں نے کہہ تو دیا تُجھ سے عِشق ہے مُجھ کو
تِرا ہی در میری آوارگی کا محور ہے

تُجھی سے رات کی مستی تُجھی سے دِن کا خُمار
تُجھی سے میری رگ و پے میں زہرِ احمر ہے

تُجھی کو مَیں نے دیا اِختِیار گریے پر
یہ چشم خُشک اگر ہے یہ چشم اگر تر ہے

تِرا ہی جِسم چمن ہے ترا ہی جسم بہار
تِری ہی زُلف سے ہر آرزُو مُعطّر ہے

تِرا ہی حُسن ہے فِطرت کا آخری شاہکار
کہ جو ادا ہے وہ تیری ادا سے کمتر ہے

یہ مَیں نے کہہ تو دیا تُجھ سے عِشق ہے لیکن
مِرے بیان میں اِک لرزشِ خفی بھی ہے

تُو میرے دعوئے اُلفت کی آن پر مت جا
کہ اِس میں ایک ندامت دبی دبی بھی ہے

وفا کی طلب ہے تِرا عِشق اور مِرے دِل میں
تِری لگن کے سِوا اور بے کلی بھی ہے

تُجھی سے دِل کا تلاطُم ہے اور نِگہ کا قرار
اِسی قرار و تلاطُم سے زِندگی بھی ہے

مگر ہیں اور بھی طُوفان اِس زمانے میں
کہ جن میں عِشق کی ناؤ شکستنی بھی ہے

مِری نِگاہ کے ایسے بھی ہوں گے چند انداز
کہ تُو کہے کہ یہ محرم ہے اجنبی بھی ہے

شبِ وِصال کی اِس مخملیں اندھیرے میں
مِری تلاش میں فردا کی روشنی بھی ہے

مُجھے تُو  آ کے مِلی وقت کے دو راہے پر
کہ صُبحِ زیست بھی ہے موت کی گھڑی بھی ہے

(کاروان)

پطرسؔ بخاری

صابر ظفر

ﺩﻥ ﮐﻮ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮨﻮﺋﮯ
ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻓﻘﻂ ﺭﻭﺡ ﮐﯽ ﺟﺎﮔﯿﺮ ﮨﻮﺋﮯ

ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﺭﻕ ﺳﺎﺩﮦ ﺭﮨﺎ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﻟﻔﻆ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮨﻮﺋﮯ

ﯾﮧ ﺍﻟﮓ ﺩﮐﮫ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﮐﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ
ﯾﮧ ﺍﻟﮓ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ ﮨﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﮨﻮﺋﮯ

ﺩﯾﺪﮦ ﻭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮮ ﻋﮑﺲ ﮐﯽ ﺗﺸﮑﯿﻞ ﺳﮯ ﮨﻢ
ﺩﮬﻮﻝ ﺳﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﻮﺋﮯ

ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮐﮧ ﺷﺐ ﺭﻗﺺ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﻇﻔﺮؔ
ﮨﻢ ﺟﺪﺍ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺲ ﺳﮯ ﺑﻐﻞ ﮔﯿﺮ ﮨﻮﺋﮯ

صابر ظفرؔ

اقبال عظیم

منصب تو ہمیں بھی مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی، بس اتنی سی مجبوری تھی

کہتے ہیں کہیں اک نگری تھی، سلطان جہاں کا جابر تھا
اور جبر کا اذنِ عام بھی تھا، یہ رسم وہاں جمہوری تھی

ہم ٹھوکر کھا کر جب بھی گرے،   رہ گیروں کو آواز نہ دی
وہ آنکھوں کی معذوری تھی، یہ غیرت کی مجبوری تھی

لہجے میں انا، ماتھے پہ شکن، اس وقت کا عین تقاضا ہے
اب  ہر وہ بات  ضروری ہے  جو پہلے  غیر ضروری تھی

ہم  اہلِ سخن  کی  قیمت  ہے  اقبال  زبانی  داد و  دہش
کل محفل میں جو ہم کو ملی وہ داد نہ تھی،مزدوری تھی

(اقبال عظیم)

Monday 4 December 2017

بہزاد لکھنوی

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنا دے

اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے

میں ڈھونڈ رہا ہوں میری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے

آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانۂ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدہء مستی
ہر ذرے کو سنگِ درِ جاناناں بنا دے

Saturday 2 December 2017

احمد فراز

غیر سے تیرا آشنا ہونا
گویا اچھا ہوا برا ہونا

خودنگوں سار، ہمسفر بیزار
اک ستم ہے شکستہ پا ہونا

کتنی جانکاہ ہے ضمیر کی موت
کتنا آساں ہے بیوفا ہونا

نشۂ لذتِ گناہ کے بعد
سخت مشکل ہے پارسا ہونا

آدمی کو خدا نہ دکھلائے
آدمی کا کبھی خدا ہونا

دل کی باتوں پہ کون جائے فراز
ایسے دشمن کا دوست کیا ہونا

Friday 1 December 2017

امجد اسلام امجد

در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے
مجھے روشنی کی تلاش تھی مجھے روشنی کی تلاش ہے

غم زندگی کے فشار میں تری آرزو کے غبار میں
اسی بے حسی کے حصار میں مجھے زندگی کی تلاش ہے

یہ جو سرسری سی نشاط ہے یہ تو چند لمحوں کی بات ہے
مری روح تک جو اتر سکے مجھے اس خوشی کی تلاش ہے

یہ جو آگ سی ہے دبی دبی نہیں دوستو مرے کام کی
وہ جو ایک آن میں پھونک دے اسی شعلگی کی تلاش ہے

یہ جو ساختہ سے ہیں قہقہے مرے دل کو لگتے ہیں بوجھ سے
وہ جو اپنے آپ میں مست ہو مجھے اس ہنسی کی تلاش ہے

یہ جو میل جول کی بات ہے یہ جو مجلسی سی حیات ہے
مجھے اس سے کوئی غرض نہیں مجھے دوستی کی تلاش ہے