AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday 27 November 2018

کرشن موہن

چاہتوں کا جہان ہے اردو
کرشن موہن
چاہتوں کا جہان ہے اردو
راحتوں کا نشان ہے اردو
عشق کا اعتبار اور وقار
حسن کی آن بان ہے اردو
دل فزا ضو کدہ صباحت کا
اور ملاحت کی کان ہے اردو
نثر کا ہے خرام خوش ہنگام
شاعری کی اڑان ہے اردو
زندہ ہے اپنا ذوق و شوق اس سے
آرزوؤں کی جان ہے اردو
لطف ہستی کا رنگ مستی کا
خوش نما کاروان ہے اردو
ذکر آرائش خم کاکل
کیف ہندوستان ہے اردو
دفتر اتحاد و یک جہتی
پیار کی داستان ہے اردو
ایکتا ہے انیکتا میں بھی
دوست داری کا مان ہے اردو
غالبؔ و میرؔ اس کے شیدا تھے
جن کی روح روان ہے اردو
آتشؔ و مومنؔ و نظیرؔ و جگرؔ
جن کی رنگیں زبان ہے اردو
اس کے عاشق نسیمؔ اور چکبستؔ
جن کے جذبوں کی شان شان ہے اردو
دوست اس کے سرورؔ اور سرشارؔ
اس لئے شادمان ہے اردو
درد مند اس کے پریم چندؔ رہے
جن کے باعث جوان ہے اردو
اس کے مشتاق ملاؔ اور فراقؔ
جن کے دل کا بیان ہے اردو
نعرہ زن جوشؔ کا خروش اس میں
جوش کی ترجمان ہے اردو
فیضؔ و اقبالؔ و کرشن چندر سے
وسعت بے کران ہے اردو
دھوم محرومؔ کی ہوئی اس میں
اور منورؔ کی آن ہے اردو
راشدؔ و میراجیؔ کی البیلی
شوخ ادا راز دان ہے اردو
فطنت و فن کی دولت بیدار
کرشن موہنؔ کی جان ہے اردو

Sunday 25 November 2018

اقبال عظیم

وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا

مزاج اس نے نہ پوچھا، مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا

غبارِ وقت نے کچھ یوں بدل دئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا

گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا، کچھ بجھا بجھا سا لگا

جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا، کچھ سنا سنا سا لگا

مجال  عرضِ  تمنا  کرے  کوئی  کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا

میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا، کچھ تھکا تھکا سا لگا

اسی کا نام ہے شائستگی، و پاسِ وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا

کچھ اس خلوص سے اس نے مجھے کہا " اقبال "
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا

(اقبال عظیم)

Friday 23 November 2018

جمیل الدین عالی


جمیل الدین عالی
اب تک مجھے نہ کوئی مرا رازداں ملا
جو بھی ملا اسیر زمان و مکاں ملا

کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گریز
سو بار بجلیوں کو مرا آشیاں ملا

اکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش سے
ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا

مدت میں ہم نے آپ بنایا تھا اک افق
جاتے تھے اس طرف کہ ترا آستاں ملا

کن حوصلوں کے کتنے دیے بجھ کے رہ گئے
اے سوز عاشقی تو بہت ہی گراں ملا

کیا کچھ لٹا دیا ہے تری ہر ادا کے ساتھ
کیا مل گیا ہمیں جو یہ حسن بیاں ملا

تھا ایک راز دار محبت سے لطف زیست
لیکن وہ راز دار محبت کہاں ملا

اک عمر بعد اسی متلون نگاہ میں
کتنی محبتوں کا خزانہ نہاں ملا

اب جستجو کا رخ جو مڑا ہے تو مت پکار
سب تجھ کو ڈھونڈتے تھے مگر تو کہاں ملا

Tuesday 20 November 2018

مظفر رزمی

شامِ غم ہے تری  یادوں کو  سجا رکھا ہے
میں نے دانستہ چراغوں کو بجھا رکھا ہے

اور کیا دوں میں گلستاں سے محبت کا ثبوت
میں نے کانٹوں کو بھی پلکوں پہ سجا رکھا ہے

جانے کیوں برق کو اس سمت توجہ ہی نہیں
میں  نے ہر  طرح نشیمن  کو سجا رکھا  ہے

زندگی سانسوں کا تپتا ہوا صحرا ہی سہی
میں  نے اس ریت  پہ اک  قصر بنا  رکھا ہے

وہ مرے  سامنے دلہن کی  طرح بیٹھے  ہیں
خواب اچھا ہے، مگر خواب میں کیا رکھا ہے

خود سناتا ہے انہیں میری محبت کے خطوط
پھر  بھی قاصد  نے  مرا نام  چھپا  رکھا ہے

کچھ نہ کچھ تلخئ حالات ہے شامل رزمی
تم نے پھولوں سے بھی دامن جو بچا رکھا ہے

(مظفر رزمی)

Thursday 15 November 2018

دوسطری

نگاہِ یار کی لذت شراب کیا جانے
ہزار جام تصدق ہزار مےخانے

Wednesday 14 November 2018

جون ایلیا

کربِ تنہائی ہے وہ شے! کہ خدا
آدمی کو پکار اٹھتا ہے!

Tuesday 13 November 2018

غلام بھیک نیرنگ

پھر وہی ہم ہیں، خیالِ رُخِ زیبا ہے وہی
سرِ شوریدہ وہی، عشق کا سودا ہے وہی

دانہ و دام سنبھالا مرے صیّاد نے پھر
اپنی گردن ہے وہی، عشق کا پھندا ہے وہی

پھر لگی رھنے تصوّر میں وہ مژگانِ دراز
رگِ جاں میں خلشِ خارِ تمنّا ہے وہی

پھر لگا رہنے وہی سلسلۂ راز و نیاز
جلوۂ حُسن وہی، ذوقِ تماشا ہے وہی

پھر ہوا ہم کو دل و دیں کا بچانا مشکل
نگہِ ناز کا پھر ہم سے تقاضا ہے وہی

ناز نے پھر کیا آغاز وہ اندازِ نیاز
حُسنِ جاں سوز کو پھر سوز کا دعویٰ ہے وہی

محوِ دیدِ چمنِ شوق ہے پھر دیدۂ شوق
گُلِ شاداب وہی، بلبلِ شیدا ہے وہی

پھر چمک اُٹّھی وہ کجلائی ہوئی چنگاری
رختِ ہستی ہے وہی، عشق کا شعلہ ہے وہی

آرزو جی اُٹھی پھر پیار جو اُس بُت نے کیا
پھر لبِ یار میں اعجازِ مسیحا ہے وہی

پاسِ ناموس نے پھر رخصتِ رفتن چاہی
شہرتِ حُسن وہی، الفتِ رسوا ہے وہی

پھر ہوئی لیلیٰ و مجنوں کی حکایت تازہ
اُن کا عالم وہی، نیرنگؔ کا نقشہ ہے وہی

(غلام بھیک نیرنگؔ)

Monday 12 November 2018

خورشید رضوی

وارداتِ دل کا قصہ ہے ، غمِ دنیا نہیں
شعر تیری آرسی ہے ، میرا آئینہ نہیں

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں

تم سمجھتے ہو، بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق
تم کا اِس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں

اُن سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں

کب تری بوئے قبا سے بے وفائی دل نے کی
کب مجھے بادِ صبا نے خون رُلوایا نہیں

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں

ثبت ہیں اس بام و در پر تیری آوازوں کے نقش
میں ، خدا نا کردہ، پتھر پوجنے والا نہیں

خامشی، کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجئے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

Saturday 10 November 2018

محسن نقوی

محسنؔ نقوی

مجھے خلا  میں بھٹکنے  کی  آرزو  ہی  سہی
کہ تُو  مِلے نہ  مِلے  تیری  جُستجو  ہی  سہی

قریب  آ  شبِ   تنہائی  تجھ  سے  پیار  کریں
تمام   دن  کی  تھکن  کا  علاج  تُو  ہی  سہی

بڑے خلوص سے  ملتا  ہے جب  بھی  ملتا  ہے
وہ  بے وفا  تو  نہیں  ہے  بہانہ  جُو  ہی  سہی

مگر   وہ   اٙبر   سٙمُندر   پہ  کیوں   برستا  ہے
زمین  بانحھ  سہی، خاک   بے  نُمُو  ہی  سہی

تم    اپنے   داغِ   سٙرِ   پیرہن   کی   بات  کرو
ہمارا   دامنِ   صد   چاک   بے   رفو  ہی  سہی

یہ ناز  کم  تو  نہیں  ہے  کہ  اُن  سے  مل  آئے
وہ  ایک   پل  کو   سرِ   راہ  گفتگو  ہی  سہی

جو اپنے آپ سے شرمائے، کس  سے  بات  کرے
میں  آئینے کی طرح اُس  کے  رُوبُرو  ہی  سہی

کِسی  طرح   تو   یہ  تنہایؑیوں  کی  شام  کٹے
وصالِ    یار    نہیں   قُربتِ   عدو    ہی   سہی

یہ   سجدہّ   سرِ  مقتل  کا   وقت   ہے  محسنؔ
خود اپنے خونِ رگِ جاں سے اب وضو ہی سہی

Thursday 8 November 2018

نا معلوم

پَت جھڑ کی برسات ہو جیسے
ایسی اُس کی باتیں تھیں
جھیل سمجھ رہے تھے جن کو
وہی تو اُس کی آنکھیں تھیں

Saturday 3 November 2018

بارش

ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ
ﮐﮭﮍﮐﮭﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ
ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ
ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻮﻧﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﺭہے ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﻠﺪ ﺳﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ
ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ
ﺣﺴﻦ ﻭ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﺁﺝ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ
ﮐﭽﮫ ﻭﻗﻌﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﯿﮟ
ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺑﺴﺮﮮ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻭﮦ
ﭼﺎہتے ﺭہے ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﻭﮦ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ
ﺁﻧﮑﮫ ﻧﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
ﮐﻞ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ
ﺧﻮﺏ ﺭﻭ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﺩﺭﺩ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﺍﺷﮏ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ

Thursday 1 November 2018

سیّد مظفر احمد ضیاؔ

یہ مانا کہ شہ رگ سے نزدیک ہے تُو
مَیں یہ فاصلہ بھی کہاں چاہتا ہُوں۔۔۔!

پیر نصیر الدین گولڑوی

تجھ سا نہ تھا کوئی ، نہ کوئی ہے حسیں کہیں
تُو بے مثال ہے ترا ثانی نہیں کہیں

اپنا جنوں میں مدِ مقابل نہیں کہیں
دامن کہیں ، جیب کہیں ، آستیں کہیں

زاہد کے سامنے جو ہو وہ نازنیں کہیں
دل ہو کہیں حُضور کا دُنیا و دیں کہیں

اک تیرے آستاں پہ جھکی ہے ہزار بار
ورنہ کہاں جھُکی ہے ہماری جبیں کہیں

دل کا لگاؤ ، دل کی لگی ، دل لگی نہیں
ایسا نہ ہو کہ دل ہی لُٹا دیں ہمیں کہیں

کیا کہیئے کس طرف گئے جلوے بکھیر کے
وہ سامنے تو تھے ابھی میرے یہیں کہیں

گزرے گی اب تو کوچہِ جاناں میں زندگی
رہنا پڑے گا اب ہمیں جا کر وہیں کہیں

دل سے تو ہیں قریب جو آنکھوں سے دُور ہیں
موجود آس پاس ہیں وہ بالیقیں کہیں

نظروں کی اور بات ہے دل کی ہے اور بات
باتیں جو میرے دل میں ہیں اب تک نہیں کہیں

اے تازہ واردانِ چمن ! ہوشیار باش
بجلی چمک رہی ہے چمن کے قریں کہیں

میرا ضمیر اپنی جگہ پر ہے مطمئن
اپنا سمجھ کے ان سے جو باتیں کہیں ' کہیں

دل نے بہت کہا کہ تمہیں مہرباں کہوں
اِس ڈر سے چُپ رہا کہ نہ کہہ دو نہیں ، کہیں

آتے ہی ہم تو کوچہِ جاناں میں لُٹ گئے
دل کھو گیا نصیر ہمارا یہیں کہیں