AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Monday 27 November 2017

غلام محمد قاصر

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

بٹھا دیا مجھے دریا کے اس کنارے پر
جدھر حبابِ تہی جام بھی نہیں آتا

چرا کے خواب وہ آنکھوں کو رہن رکھتا ہے
اور اس کے سر کوئی الزام بھی نہیں آتا

Tuesday 21 November 2017

ساحر لدھیانوی

دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تمکو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں

پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
کس کس سےاپنا رشتہء جاں توڑ آئے ہیں

مشکل ہو عرضِ حال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دردِ وفا کون دے گیا

راتوں کو جاگنے کی سزا کون دے گیا
کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں

ساحر لدھیانوی

جون ایلیا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل میری جان, مر گیا کب کا
۔
جون ایلیا

Sunday 12 November 2017

احمد راہی

دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا

کون ہوتا ہے کسی کا شبِ تنہائی میں
غمِ فرقت ہی غمِ عشق کو بہلائے گا

چاند کے پہلو میں دَم سادھ کے روتی ہے کرن
آج تاروں کا فسوں خاک نظر آئے گا

راکھ میں آگ بھی ہے غمِ محرومی کی
راکھ ہو کر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا

وقت خاموش ہے روٹھے ہوئے یاروں کی طرح
کون لَو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا

دھوپ کو دیکھ کے اس جسم پہ پڑتی ہے چمک
چھاؤں دیکھیں گے تو اس زُلف کا دھیان آئے گا

زندگی! چل کہ ذرا موت کا دم خم دیکھیں
ورنہ یہ جذبہ لحَد تک ہمیں لے جائے گا

احمد راہیؔ

Saturday 4 November 2017

عدیم ہاشمی

عدیم ہاشمی

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خُوشبو کی طرح‌پھیلا تھا میرے چار سُو
میں اُسے محسوس کر سکتا تھا، چُھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں، کوئی بھی آیا نہ تھا

یہ سبھی ویرانیاں اُس کے جُدا ہونے سے تھیں
آنکھ دُھندلائی ہوئی تھی، شہر دُھندلایا نہ تھا

عکس تو موجود تھا پر عکس تنہائی کا تھا
آئینہ تو تھا مگر اُس میں تیرا چہرا نہ تھا

میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پِھرا
ساری دُنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا

خُود چڑھا رکھے تھے تن پر اَجنبیت کے غُلاف
ورنہ کب اِک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں کے دبے تھے زیرِ لب
ایک پتھر خامشی کا تھا ، جو ہٹتا نہ تھا

محفلِ اہلِ وفا میں‌ہر طرح کے لوگ تھے
یا ترے جیسا نہیں تھا یا مرے جیسا نہ تھا

آج اُس نے درد بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا

یاد کرکے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

جون ایلیا

زلفِ پیچاں کے خم، سنوار ے ہیں
مجھ کو پھر پیش، نئے اشار ے ہیں

آج وہ بھی، نظر نہیں آتے
کل جو کہتے تھے، ہم تمہار ے ہیں

ہم نشیں اک تیر ے نہ ہونے سے
بڑی مشکل سے، دن گزار ے ہیں

تجھ کو پا کر بھی، کچھ نہیں پایا
تیر ے ہو کر، بھی بے سہار ے ہیں

ان رفیقوں سے شرم آتی ہے
جو میرا ساتھ د ے کے ہار ے ہیں

جون ہم زندگی کی راہوں میں
اپنی تنہا روی کے مار ے ہیں

جون ایلیاء ۔۔۔!!