AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday 30 January 2018

سیماب اکبر آبادی


نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگی
کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی

تجھے دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی

مزہ آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا
زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی

یہی عالم رہا پردہ نشینی کا تو ظاہر ہے
خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی

تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے لگ گئی ہوگی

سیماب اکبر آبادی


سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری
نہ جانے میں نے توبہ کی تو مے خانے پہ کیا گزری

ملیں تو فائزان منزل مقصود سے پوچھوں
گزر گاہ محبت سے گزر جانے پہ کیا گزری

کسی کو میرے کاشانے سے ہمدردی نہیں شاید
ہر اک یہ پوچھتا ہے میرے کاشانے پہ کیا گزری

نہ ہو جو زندگی انجام وہ وجدان ناقص ہے
حضور شمع بعد وجد پروانے پہ کیا گزری

بتائیں برہمن اور شیخ ان کی خانہ جنگی میں
خدا خانے پہ کیا بیتی صنم خانے پہ کیا گزری

تو اپنے ہی مآل سوز غم پر غور کر پہلے
تجھے اس سے نہیں کچھ بحث پروانے پہ کیا گزری

کسی حکمت سے کر دے کوئی گویا مرنے والوں کو
یہ راز اب تک ہے سربستہ کہ مر جانے پہ کیا گزری

تری ہر سو تجلی اور میری ہر طرف نظریں
تجھے تو یاد ہوگا آئینہ خانے پہ کیا گزری

زباں منہ میں ہے عرض حال کر تو نے تو دیکھا ہے
کہ خوئے ضبط و خاموشی سے پروانے پہ کیا گزری

وہ کہتا تھا خدا جانے بہار آئے تو کیا گزرے
خدا جانے بہار آئی تو دیوانے پہ کیا گزری

یہ ہے سیمابؔ اک نا گفتہ بہ افسانہ کیا کہیے
وطن سے کنج غربت میں چلے آنے پہ کیا گزری

Sunday 21 January 2018

شریف کنجاہی

شریف کنجاہی

پانی بھرن پنہاریاں تے وَنو وَن گھڑے
بھریا اوس دا جانئے جس دا توڑ چڑھے
اوہوا لَج چرکلی۔ اوہوا کُھوہ دا گھیر
اک بَھنّے اک بَھرلئے، ایہہ لیکھاں دا پھیر
لیکھاں دی سب کھیڈ ہے، جدوں ایہہ دیندے ہار
لکھاں سُگھڑ سیانیاں بُھلن اَدھ وچکار
بُگھنےگُھٹ گُھٹ بنھیاں تے نویں لیائیاں لَج
جس دا بَھجنا لِکھیا، اوس دا جاندا بَھج
اُس دی ڈھاک اج سَکھنی، جس نے بھریا کل
اَج اوہ مُورکھ بن گئی کل جس نوں سی وَل
تکّیاں مان کریندیاں اساں گھاگے ہَتھ پھڑے
پانی بھرن پنہاریاں تے وَنو وَن گھڑے

قتیل شفائی

دل لگا بیٹھا ہوں لاہور کے ہنگاموں سے
پیار ہے پھر بھی ہری پور، تری شاموں سے

کبھی آندھی، کبھی شُعلہ، کبھی نغمہ، کبھی رنگ
اپنا ماضی مجھے یاد آئے کئی ناموں سے

ایک وہ دن کہ بنا دید تڑپ جاتے تھے
ایک یہ دن کہ بہل جاتے ہیں پیغاموں سے

جب مرے ہاتھ پہ کانٹوں نے دیا تھا بوسہ
وہ مرا پہلا تعارف تھا گُل انداموں سے

جان و دل دے کے محّبت کے خریدار بنے
یہ کھری چیز تو مِلتی ہے کھرے داموں سے

چور بازار میں بِکنے نہ پُہنچ جائے کہیں
جِنسِ ایماں کو نکلوائیے گوداموں سے

پیروی حضرتِ غالبؔ کی ہوئی نصف قتیل
مے تو ملتی نہیں رغبت ہے فقط آموں سے

Saturday 20 January 2018

قمر مرادآبادی

لذتِ  دردِ  جگر  یاد  آئی
پھر تری پہلی نظر یاد آئی

درد نے جب کوئی کروٹ بدلی
زندگی   بارِ  دگر  یاد  آئی

پڑ گئی جب ترے دامن پہ نظر
عظمتِ  دیدۂ تر  یاد آئی

اپنا  کھویا  ہوا  دل یاد آیا
ان کی مخمور نظر یاد آئی

دیر و کعبہ سے جو ہو کر گزرے
دوست کی راہِ گزر یاد آئی

دیکھ کر اس رخِ زیبا پہ نقاب
اپنی  گستاخ  نظر  یاد آئی

جب بھی تعمیرِ نشیمن کی قمر
یورشِ برق و شرر یاد آئی

(قمر مراد آبادی)

Friday 19 January 2018

فارغ بخاری

وہ روز و شب بھی نہیں ہیں، وہ رنگ و بو بھی نہیں
وہ بزمِ جام و سبو بھی نہیں، وہ تو بھی نہیں

نہ دل دھڑکتے ہیں مل کر، نہ آنکھیں جھکتی ہیں
لہو کی گردشیں اب مثلِ آب جو بھی نہیں

کبھی کبھی کی ملاقات تھی سو وہ بھی گئی
تری نگاہ کا رنگ بہانہ جو بھی نہیں

کب آفتاب ڈھلے اور چاندنی چھٹکے
کسی کو اب یہ سرِ شام جستجو بھی نہیں

بس اب تو یاد سے ہی زندگی عبارت ہے
کہاں کا وعدہ کہ ملنے کی آرزو بھی نہیں

کہ جیسے بھیگے پروں سے اڑانیں چھن جائیں
دلوں کی شورش بے نام کو بہ کو بھی نہیں

وہ جس کی گرمی قیامت اٹھا رہی تھی کبھی
اسی بدن کو جو کاٹو تو اب لہو بھی نہیں

لگی ہے تیس برس سے ہمارے خوں کی جھڑی
مگر ابھی شجر دار سرخ رو بھی نہیں

میں سوچتا ہوں جئیں بھی تو کس لیے فارغؔ
کہ اب تو شہر میں پہلی سی آبرو بھی نہیں

فارغؔ بخاری

جمیل الدین عالی

دوہے
......
دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ
....
دوہے کبت کہہ کہہ کر عالؔی من کی آگ بجھائے
من کی آگ بجھی نہ کسی سے اسے یہ کون بتائے
....
ایک بدیسی نار کی موہنی صورت ہم کو بھائی
اور وہ پہلی نار تھی بھیا جو نکلی ہرجائی
....
ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات
یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات
.....
اک گہرا سنسان سمندر جس کے لاکھ بہاؤ
تڑپ رہی ہے اس کی اک اک موج پہ جیون ناؤ
...
اس دیوانی دوڑ میں بچ بچ جاتا تھا ہر بار
اک دوہا سو اسے بھی لے جا تو ہی خوش رہ یار
...
کچے محل کی رانی آئی رات ہمارے پاس
ہونٹ پہ لاکھا گال پہ لالی آنکھیں بہت اداس
....
نا کوئی اس سے بھاگ سکے اور نا کوئی اس کو پائے
آپ ہی گھاؤ لگائے سمے اور آپ ہی بھرنے آئے
....
نیند کو روکنا مشکل تھا پر جاگ کے کاٹی رات
سوتے میں آ جاتے وہ تو نیچی ہوتی بات
...
پہلے کبھی نہیں گزری تھی جو گزری اس شام
سب کچھ بھول چکے تھے لیکن یاد رہا اک نام
...
پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار
کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گئے سب یار
...
روٹی جس کی بھینی خوشبو ہے ہزاروں راگ
نہیں ملے تو تن جل جائے ملے تو جیون آگ
....
روز اک محفل اور ہر محفل ناریوں سے بھرپور
پاس بھی ہوں تو جان کے بیٹھیں عالؔی سب سے دور
...
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہائے
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جائے
....
شہر میں چرچا عام ہوا ہے ساتھ تھے ہم اک شام
مجھے بھی جانیں تجھے بھی جانیں لوگ کریں بد نام
...
سورؔ کبیرؔ بہاریؔ میراؔ ؔرحمنؔ تلسیؔ داس
سب کی سیوا کی پر عالؔی گئی نہ من کی پیاس
....
اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
...

Thursday 18 January 2018

افتخار احمد صدیقی

وہ  خواب  تھا  بکھر گیا ، خیال تھا  ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا، کیوں بجھ گیا پتا نہیں

ہر  ایک  دن  اداس  دن ، تمام  شب  اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے کہ جیسے کچھ بچا نہیں

وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم  سفر میں  اب کوئی  لب دعا نہیں

ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں، کسی سے دل ملا نہیں

ہے نور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں، فلک پہ کیا خدا نہیں؟؟

افتخار احمد صدیقی

Monday 15 January 2018

میر مہدی مجروح

یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
لاکھ فتنے اٹھائے بیٹھے ہیں

وہ نہیں ہیں تو درد کو ان کے
سینے سے ہم لگائے بیٹھے ہیں

یہ بھی کچھ جی میں آ گئی ہو گی
کیا وہ میرے بٹھائے بیٹھے ہیں

تذکرہ وصل کا نہیں خالی
وہ بھی کچھ لطف پائے بیٹھے ہیں

مجھ کو مارا ہے پر خجالت سے
وہ بھی گردن جھکائے بیٹھے ہیں

رنگ جمتا ہے یاں نہ آنے کا
یعنی مہندی لگائے بیٹھے ہیں

مجھ کو محفل میں دیکھ کر بولے
آپ یاں کیوں کہ آئے بیٹھے ہیں

خیر ہو ہیں بگاڑ کے آثار
کچھ وہ منہ کو بنائے بیٹھے ہیں

غم ہمیں کھا رہا ہے تو کیا غم
ہم بھی تو غم کو کھائے بیٹھے ہیں

زد میں گر ہے عدو تو ہو وہ تو
گھات مجھ پر لگائے بیٹھے ہیں

کھوئے جانے کا اپنے دھیان نہیں
کچھ تو ایسا ہی پائے بیٹھے ہیں

شرم سے ہیں وہ لاکھ پردے میں
گو مرے پاس آئے بیٹھے ہیں

شمع ساں گو گھلے ہی جاتے ہیں
اس سے پر لو لگائے بیٹھے ہیں

اس گلی میں بسان نقش قدم
ہم بھی پاؤں جمائے بیٹھے ہیں

ہو نہ اے شمع حسن پر نازاں
وہ بھی محفل میں آئے بیٹھے ہیں

شوخیاں خود ہیں پردہ در ان کی
کیوں وہ منہ کو چھپائے بیٹھے ہیں

فرد باطل سمجھ کے دنیا کو
نقش ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

کیا ہے اس خوش خرام کی آمد
فتنے جو جائے جائے بیٹھے ہیں

طور جس آگ نے جلایا تھا
ہم وہ دل میں چھپائے بیٹھے ہیں

چشمکیں غیر سے دکھا دیں گے
ہم بھی آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں

کل تقدس مآب مسجد تھے
آج رندوں میں آئے بیٹھے ہیں

لاوبالی خرام ہے مجروحؔ
وضع کیسی بنائے بیٹھے ہیں

میر مہدی مجروحؔ

Tuesday 9 January 2018

وارث شاہ

اک رات دا جاگنا بہت اوکھا
اک جاگدا دکھی بیمار راتیں

یا راتیں چور تے ٹھگ جاگن
یا جاگدا پہرے دار راتیں

یا جاگدا عشق دی رمز والا
یا جاگدا یار دا یار راتیں

وارث میاں سب سو جاندے
یا جاگدا پروردگار راتیں

میر مہدی مجروح

میر مہدی مجروح

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے، جانا بھی تو کیا جانا

اک عمر کے دُکھ پائے، سوتے ہیں فراغت سے
اے غلغلۂ محشر، ہم کو نہ جگا جانا

کیا یار کی بد خوئی، کیا غیر کی بد خواہی
سرمایۂ صد آفت ہے دل ہی کا آ جانا

کچھ عرضِ تمنّا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

چلمن کا الٹ جانا، ظاہر کا بہانہ ہے
ان کو تو بہر صورت اک جلوہ دکھا جانا

ہے حق بطرف اسکے، چاہے سَو ستم کر لو
اس نے دلِ عاشق کو مجبورِ وفا جانا

انجام ہوا اپنا آغازِ محبّت میں
اس شغل کو جاں فرسا ایسا تو نہ تھا جانا

مجروح ہوئے مائل کس آفتِ دوراں پر
اے حضرتِ من، تم نے دل بھی نہ لگا جانا

اعتبار ساجد

زخموں  کا  دوشالہ پہنا  دھوپ کو  سر پر تان لیا
کیا  کیا ہم نے  کشٹ کمائے  کہاں کہاں  نِروان لیا

نقش دیے تری آشاؤں کو عکس دیے ترے سپنوں کو
لیکن  دیکھ  ہماری حالت  وقت نے  کیا  تاوان  لیا

اشکوں میں ہم گوندھ چکے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم  کے  پھول  بنانے  بیٹھے  لیکن دھوپ نے آن لیا

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں  اس نے بات نہ کی
کچھ تو گردِ سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

آنکھ پہ ہاتھ دھرے پھرتے تھے لیکن شہر کے لوگوں نے
اس کی باتیں چھیڑ کے  ہم کو  لہجے سے  پہچان لیا

سورج سورج کھیل رہے تھے ساجد کل ہم اس کے ساتھ
اک  اک قوسِ قزح سے  گزرے  اک اک بادل چھان لیا

(اعتبار ساجد)

احمد فراز


اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی​
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی​

میں بھی شہرِ وفا میں نو وارد​
وہ بھی رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی​

میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس​
وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی​

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ​
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی​


گر چہ پہلا سا اجتناب نہیں​
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی​

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھِلتا​
بُوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی​

خود کلامی میں کب یہ نشّہ تھا​
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی​

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں​
دُوریوں میں بھی دلکشی ہے ابھی​

فصلِ گُل میں بہار پہلا گلاب​
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی​

رات کس ماہ وش کی چاہت میں​
یہ شبستاں سجا رہی ہے ابھی​

میں کسی وادیِ خیال میں تھا​
برف سی دل پہ گر رہی ہے ابھی​

میں تو سمجھا تھا بھر چکے سب زخم​
داغ شاید کوئی کوئی ہے ابھی​

دور دیسوں سے کالے کوسوں سے​
کوئی آواز آ رہی ہے ابھی​

زندگی کوئے نا مرادی سے​
کس کو مڑ مڑ کے دیکھتی ہے ابھی​

اس قدر کھِچ گئی ہے جاں کی کماں​
ایسا لگتا ہے ٹوٹتی ہے ابھی​

ایسا لگتا ہے خلوتِ جاں میں​
وہ جو اک شخص تھا، وہی ہے ابھی​

مدتیں ہو گئیں فراز مگر​
وہ جو دیوانگی سی تھی، ہے ابھی​

(احمد فراز)​

Friday 5 January 2018

حفیظ ہوشیارپوری

ﻭﮦ ﺁ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺟﻔﺎﺅﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺟﻔﺎ ﭘﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﮔﻤﺎﮞ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﻣِﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺟﻔﺎﮰ طعنہِ ﺍﻏﯿﺎﺭ ﯾﺎﺩ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﻏﻢِ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺻﺪﻣﮯ ﺗﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﻟٰﮩﯽ! ﺧﯿﺮ ﮨﻮ، ﯾﮧ ﺁﺝ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺩﻝِ ﺣﺰﯾﮟ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﯾﺐ ﺩﮮ ﻟﻮﮞ ‌ﮔﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﯾﮧ ﺟﮭﻮﭦ ﮨﯽ ﮐﮩﮧ ﺩﮮ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮭﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ‌ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﻔﯿﻆؔ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺣﻔﯿﻆؔ ﮨﻮﺷﯿﺎﺭ ﭘﻮﺭﯼ