AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday 18 December 2018

دوسطری

میں تیرا  حُسن اگر  پُھونک دوں دیواروں پر
شہر کا شہر ، طلسمات میں ڈھل جاۓ گا.......

Sunday 16 December 2018

فضل احمد کریم فضلی

فضل احمد کریم فضلی
غموں سے کھیلتے رہنا کوئی ہنسی بھی نہیں
نہ ہو یہ کھیل تو پھر لطف زندگی بھی نہیں

نہیں کہ دل میں تمنا مرے کوئی بھی نہیں
مگر یہ بات کچھ ایسی کی گفتنی بھی نہیں

ابھی میں کیا اٹھوں نیت ابھی بھری بھی نہیں
ستم یہ اور کہ مے کی ابھی کمی بھی نہیں

ادائیں ان کی سناتی ہیں مجھ کو میری غزل
غزل بھی وہ کہ جو میں نے ابھی کہی بھی نہیں

حضور دوست مرے گو مگو کے عالم نے
کہا بھی ان سے جو کہنا تھا بات کی بھی نہیں

ہمارے ان کے تعلق کا اب یہ عالم ہے
کہ دوستی کا ہے کیا ذکر دشمنی بھی نہیں

کہا جو ترک محبت کو شیخ نے کھلا
فرشتہ تو نہیں لیکن یہ آدمی بھی نہیں

Wednesday 12 December 2018

وحید اختر


وحید اختر
دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے ترا نقش کف پا یاد نہیں ہے
افسردگی عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دل زدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
ہاں مٹ گئے جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے
گھر اپنا تو بھولی ہی تھی آشفتگی دل
خود رفتہ کو اب در بھی ترا یاد نہیں ہے
لیتے ہیں ترا نام ہی یوں جاگتے سوتے
جیسے کہ ہمیں اپنا خدا یاد نہیں ہے
یہ ایک ہی احسان غم دوست ہے کیا کم
بے مہری دوراں کی جفا یاد نہیں ہے
بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل
جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے
اس بار وحیدؔ آپ کی آنکھیں نہیں برسیں
کیا جھومتی زلفوں کی گھٹا یاد نہیں ہے

Monday 10 December 2018

دیو منی پانڈے

دیومنی پانڈے

اس جہاں میں پیار مہکے زندگی باقی رہے
یہ دعا مانگو دلوں میں روشنی باقی رہے

آدمی پورا ہوا تو دیوتا ہو جائے گا
یہ ضروری ہے کہ اس میں کچھ کمی باقی رہے

دوستوں سے دل کا رشتہ کاش ہو کچھ اس طرح
دشمنی کے سائے میں بھی دوستی باقی رہے

دل کے آنگن میں اگے گا خواب کا سبزہ ضرور
شرط ہے آنکھوں میں اپنی کچھ نمی باقی رہے

عشق جب کریے کسی سے دل میں یہ جذبہ بھی ہو
لاکھ ہوں رسوائیاں پر عاشقی باقی رہے

دل میں میرے پل رہی ہے یہ تمنا آج بھی
اک سمندر پی چکوں اور تشنگی باقی رہے

Friday 7 December 2018

دوسطری

چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو
آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں

بسمل سعیدی

غم نہیں نازِ حسن ہے، حسن کے ناز اٹھائے جا
اے دلِ مبتلائے غم! غم میں بھی مسکرائے جا

حسن ہے عشقِ آفریں حسن پہ دل لٹائے جا
عشق کو دردِ دل بنا، درد کو دل بنائے جا

جلوہ بہ جلوہ گر نہیں، پردہ بہ پردہ آئے جا
دل میں مرے سمائے جا، روح میں جگمگائے جا

شُورشِ کائنات میں غم کو خوشی منائے جا
ہنس مرے آنسوؤں میں تُو، آہ میں مسکرائے جا

تاروں میں جگمگائے جا، چاند میں مسکرائے جا
دور  سے  کوئی  نغمۂ روح  فزا سنائے  جا

ضبط بقدرِ ظرف ہے، ظرف بقدرِ شوق ہے
تُو ابھی سامنے نہ آ، شوق ابھی بڑھائے جا

باہمہ ترکِ رسم و راہ کچھ تو ہو التفات بھی
تو مجھے بھول جا  مگر، یاد مجھے آئے جا

حسن سے بڑھ کے بدگماں عشق ہے اپنے آپ سے
میں ابھی مطمئن نہیں، تو مجھے آزمائے جا

صرف  جبینِ  شوق  ہو اور  کسی کا آستاں
سجدے بھی درمیاں نہ ہوں سجدوں کو بھی مٹائے جا

بزمِ نشاطِ کائنات مجھ پہ ہے خندہ زن ہنوز
خلوتِ غم میں تو ابھی اور مجھے رلائے جا

اب نہ وہ بسمل اور نہ تُو اب نہ وہ دل نہ آرزو
اب تو خدا کے واسطے یاد اسے نہ آئے جا

(بسمل سعیدی)

Thursday 6 December 2018

وارث کرمانی

لاکھ ناداں ہیں مگر اتنی سزا بھی نہ ملے
چارہ سازوں کو مری شامِ بلا بھی نہ ملے

حسرت  آگیں تو  ہے  ناکامئ  منزل  لیکن
لطف تو جب ہے کہ خود اپنا پتا بھی نہ ملے

کچھ نگاہوں سے غمِ دل کی خبر ملتی ہے
ورنہ ہم وہ ہیں کہ باتوں سے ہوا بھی نہ ملے

خواہشِ داد رسی کیا ہو ستمگر سے جہاں
آنکھ  میں  شائبۂ  عذرِ  جفا  بھی  نہ ملے

اس قدر قحطِ بصیرت بھی نہیں اے واعظ
ہم بتوں کے لئے  نکلیں تو  خدا بھی نہ ملے

عشق  وہ عرصۂ  پر خار  ہے ہمدم کہ جہاں
زندگی  راس  نہ آئے  تو  قضا  بھی نہ ملے

کیا  قیامت  ہے طبیعت  کی  روانی  وارث
کوئی ڈھونڈھے تو نشانِ کفِ پا بھی نہ ملے

(وارث کرمانی)

Tuesday 4 December 2018

دو سطری

آپ کو کون ‘تُم’ پکارے گا۔۔۔؟

آپ کس کو کہا کریں گے ‘آپ’ ؟