AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...
Showing posts with label محسن نقوی. Show all posts
Showing posts with label محسن نقوی. Show all posts

Saturday, 10 November 2018

محسن نقوی

محسنؔ نقوی

مجھے خلا  میں بھٹکنے  کی  آرزو  ہی  سہی
کہ تُو  مِلے نہ  مِلے  تیری  جُستجو  ہی  سہی

قریب  آ  شبِ   تنہائی  تجھ  سے  پیار  کریں
تمام   دن  کی  تھکن  کا  علاج  تُو  ہی  سہی

بڑے خلوص سے  ملتا  ہے جب  بھی  ملتا  ہے
وہ  بے وفا  تو  نہیں  ہے  بہانہ  جُو  ہی  سہی

مگر   وہ   اٙبر   سٙمُندر   پہ  کیوں   برستا  ہے
زمین  بانحھ  سہی، خاک   بے  نُمُو  ہی  سہی

تم    اپنے   داغِ   سٙرِ   پیرہن   کی   بات  کرو
ہمارا   دامنِ   صد   چاک   بے   رفو  ہی  سہی

یہ ناز  کم  تو  نہیں  ہے  کہ  اُن  سے  مل  آئے
وہ  ایک   پل  کو   سرِ   راہ  گفتگو  ہی  سہی

جو اپنے آپ سے شرمائے، کس  سے  بات  کرے
میں  آئینے کی طرح اُس  کے  رُوبُرو  ہی  سہی

کِسی  طرح   تو   یہ  تنہایؑیوں  کی  شام  کٹے
وصالِ    یار    نہیں   قُربتِ   عدو    ہی   سہی

یہ   سجدہّ   سرِ  مقتل  کا   وقت   ہے  محسنؔ
خود اپنے خونِ رگِ جاں سے اب وضو ہی سہی

Wednesday, 16 May 2018

محسن نقوی

عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے

کھنڈر کی تہہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے

سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے

مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ہے چراغوں کی آبرو کر کے

زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رو کر کے

جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ہے
نشان‌ طوق وفا زینت گلو کر کے

اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ہے
ہماری آنکھ تری دید سے وضو کر کے

کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا محسنؔ
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے

Tuesday, 10 April 2018

دو سطری

گھر سے نکلو کہ یہی شرطِ وفا ہے محسن
بے ہنر گوشہ نشیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلِ ہُنر آوارہ

Tuesday, 19 September 2017

محسن نقوی

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خدوخال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زباں خوشبو کی
لوگ سُنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے ، وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے ، کوئی خواب تھا وہ
دِل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُس کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دِل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُس کے ، میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خب  ر ، اِن دنوں وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا۔ ۔ ۔*!!!
  
    محسن نقوی