ہائے وہ شخص کہ جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تو نہ ملے
(خواجہ رضی حیدر)
ہائے وہ شخص کہ جو نیند کی وادی میں کہیں
تیری آواز سے بیدار ہو اور تو نہ ملے
(خواجہ رضی حیدر)
آنکھیں
مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لیے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں
میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا اٹھا کر آنکھیں
اس جگہ آج بھی بیٹھا ہوں اکیلا یارو
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں
مجھ سے نظریں وہ اکثر چرا لیتے ہیں فراز
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں
☆☆☆☆عباس تابش☆☆☆☆☆
تیرے بس میں بھی نہ تھے جو ترے باعث بھی نہ تھے
اُن مسائل کا بھی میں نے تجھے حل جانا تھا
میری حساس طبیعت کا برا ہوجس نے
تیری چپ کو بھی ترا رد عمل جاناتھا
کبھی اول نظر آنا کبھی آخر ہونا
اور وقفوں سے مرا غائب و حاضر ہونا
میں کسی اور زمانے کے لیے ہوں شاید
اس زمانے میں ہے مشکل مرا ظاہر ہونا
میں نہ ہونے پہ ہی خوش تھا مگر ایسے ہوا پھر
مجھ کو ناچار پڑا آپ کی خاطر ہونا
دور ہو جاؤں بھی اس باغ بدن سے لیکن
کہیں ممکن ہی نہیں ایسے مناظر ہونا
واقعی تم کو دکھائی ہی نہیں دیتا ہوں
یا ضرورت ہے تمہاری مرا منکر ہونا
راستہ آپ بنانا ہی کوئی سہل نہیں
پھر اسی راستے کا آپ مسافر ہونا
وہ مقامات مقدس وہ ترے گنبد و قوس
اور مرا ایسے نشانات کا زائر ہونا
بادلوں اور ہواؤں میں اڑا پھرتا میں
کاش ہوتا مری تقدیر میں طائر ہونا
کام نکلا ہے کچھ اتنا ہی یہ پیچیدہ ظفرؔ
جتنا آساں نظر آیا مجھے شاعر ہونا
ہجر کی شام فسردہ تھی سو رخصت نہیں کی
اُس نے بھی صبر کیا, میں نے بھی عجلت نہیں کی
ایک سر سبز تعلق کو بچانے کے لیے
میں نے صحرا سے کنارہ کیا, وحشت نہیں کی
ایک شب میں تمہیں کیا کیا میں سکھاؤں مِرے دوست
تم نے کیا پہلے کسی سے بھی محبت نہیں کی
گفتگو رہتی ہے آنکھوں کی زبانی پہروں
میں نے اس کی ابھی آواز سماعت نہیں کی
یوں سلیقے سے سہے اُس کے روّیئے خود پر
اپنے آگے بھی کبھی اس کی شکائت نہیں کی
ہنسی آتی تھی مگر خود پہ بہت ظلم کیا
میں نے اک غم کی امانت میں خیانت نہیں کی
کیا کروں, کیسے کروں دوست کہ جب ہے ہی نہیں
جو محبت میں کشش ہوتی تھی, اب ہے ہی نہیں
اور کب تک اسے حیرانی سے دیکھے جاؤں
یار اس دنیا میں تو کچھ بھی عجب ہے ہی نہیں
جانتا ہوں کہ ہوس کیا ہے , ضرورت کیا ہے
مطمئن ہوں کہ مجھے کوئی طلب ہے ہی نہیں
جیسے جی چاہے یہاں خاک اڑاؤ تم بھی
دشت میں کوئی سلیقہ, کوئی ڈھب ہے ہی نہیں
کیا بتاؤں میں خدا اور اداسی کا پتہ
یوں بھی دونوں کا کوئی خاص سبب ہے ہی نہیں
ہوائیں لے گئیں وہ خاک بھی اڑا کے جسے
کبھی تمہارے قدم چھو گئے تھے اور میں نے
یہ جی سے چاہا تھا دامن میں باندھ لوں گا اسے
سنا تھا میں نے کبھی یوں ہوا ہے دنیا میں
کہ آگ لینے گئے اور پیمبری پائی
کبھی زمیں نے سمندر اگل دیے لیکن
بھنور ہی لے گئے کشتی بچا کے طوفاں سے
میں سوچتا ہوں پیمبر نہیں اگر نہ سہی
کہ اتنا بوجھ اٹھانے کی مجھ میں تاب نہ تھی
مگر یہ کیوں نہ ہوا غم ملا تھا دوری کا
تو حوصلہ بھی ملا ہوتا سنگ و آہن سا
مگر خدا کو یہ سب سوچنے کا وقت کہاں؟
یہ کہنا تو نہیں کافی کہ بس پیارے لگے ہم کو
انہیں کیسے بتائیں ہم کہ وہ کیسے لگے ہم کو
مکیں تھے یا کسی کھوئی ہوئی جنت کی تصویریں
مکاں اس شہر کے بھولے ہوئے سپنے لگے ہم کو ہم
ان کو سوچ میں گم دیکھ کر واپس پلٹ آئے
وہ اپنے دھیان میں بیٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو
بہت شفاف تھے جب تک کہ مصروف تمنا تھے
مگر اس کار دنیا میں بڑے دھبے لگے ہم کو
جہان تنہا ہوئے دل میں بھنور سے پڑنے لگتے ہیں
اگرچہ مدتیں گزریں کنارے سے لگے ہم کو
ہاتھ سے ناپتا ہوں درد کی گہرائی کو
یہ نیا کھیل ملا ہے مری تنہائی کو
تھا جو سینے میں چراغ دل پرخوں نہ رہا
چاٹیے بیٹھ کے اب صبر و شکیبائی کو
دل افسردہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں
کیا کریں آپ کی اس حوصلہ افزائی کو
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
نگہ ناز نہ ملتے ہوئے گھبرا ہم سے
ہم محبت نہیں کہنے کے شناسائی کو
دل ہے نیرنگی ایام پہ حیراں اب تک
اتنی سی بات بھی معلوم نہیں بھائی کو
سانوں زرا نہ آندی سمجھ ملاں
گل علم تے ___وعظ کلام والی
رکھ ٹھپ کتاب___ شتاب ساقی
کر صفت کوئی یار دے نام والی
دن ڈھلا ، شام ہوئی،چاند ستارے نکلے
تم نے وعدہ تو کیا،گھرسے نہ پیارے ! نکلے
دوست جتنے تھے,وہ دشمن مِرے سارے نکلے
دم بھرا میرا,طرفدار تمھارے نکلے
اور پھر اور ہیں,اوروں کا گِلہ کیا کرنا
ہم نے پرکھا جو تمھیں,تم نہ ہمارے نکلے
غم و آلام کے ماروں کا بُہت تھا چرچا
وہ بھی کم بخت،تِرے عشق کے مارے نکلے
وائے قسمت کہ نہ راس آئی مُحبت ہم کو
ہائے تقدیر کہ وہ بھی نہ ہمارے نکلے
جیتے جی ہم نہ ہلے اپنے ٹھکانے سے نصیر !
اُن کے کُوچے سے جنازے ہی ہمارے نکلے
شب بسر کرنی ہے، محفوظ ٹھکانہ ہے کوئی ؟
کوئی جنگل ہے یہاں پاس میں؟ صحرا ہے کوئی؟
ویسے سوچا تھا محبت نہیں کرنی میں نے
اس لئے کی کہ کبھی پوچھ ہی لیتا ہے کوئی
آپ کی آنکھیں تو سیلاب زدہ خطے ہیں
آپ کے دل کی طرف دوسرا رستہ ہے کوئی؟
جانتا ہوں کہ تجھے ساتھ تو رکھتے ہیں کئی
پوچھنا تھا کہ ترا دھیان بھی رکھتا ہے کوئی؟
دکھ مجھے اس کا نہیں ہے کہ دکھی ہے وہ شخص
دکھ تو یہ ہے کہ سبب میرے علاوہ ہے کوئی
دو منٹ بیٹھ، میں بس آئینے تک ہو آؤں
اُس میں اِس وقت مجھے دیکھنے آتا ہے کوئی
خوف بولا: "کوئی ہے؟ جس کو بُلانا ہے، بُلا!"
دیر تک سوچ کے میں زور سے چیخا: " ہے کوئی؟؟"
عمیر نجمی
نہ فاصلے کوئی رکھنا نہ قربتیں رکھنا
بس اب بقدرِ غزل اس سے نسبتیں رکھنا
یہ کس تعلقِ خاطر کا دے رہا ہے سراغ
کبھی کبھی ترا مجھ سے شکایتیں رکھنا
میں اپنے سچ کو چھپاؤں تو روح شور مچائے
عذاب ہو گیا میرا سماعتیں رکھنا---!!!
فضائے شہر میں اب کے بڑی کدورت ہے
بہت سنبھال کے اپنی محبتیں رکھنا
ہم اہلِ فن کو بھی گمنامیاں تھیں راس بہت
ہوا ہے باعثِ رسوائی شہرتیں رکھنا
قصیدہ خوانی کرو، اور موج اڑاؤ کہ شوق
تمام کارِ زیاں ہے صداقتیں رکھنا---!!!
(رضی اختر شوق)
یہ کیا مذاق فرشتوں کو آج سوجھا ہے
ہجومِ حشر میں لے آئے ہیں پلا کے مجھے
تمام عمر کے شکوے مٹائے جاتے ہیں
وہ دیکھتے ہیں دمِ نزع مُسکرا کے مجھے
(ریاض خیر آبادی)
احسان دانش
توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا
“پی“! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!
“آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا“!
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا!
جگر مراد آبادی
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا
زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِخاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
ساغر صدیقی
میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں ، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
عبدالحمید عدم
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے، میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے غیض کو بھڑکا کے پی گیا
صد ہا مطالبات کے بعد ایک جامِ تلخ
دنیائے جبر و صبر کو دھڑکا کے پی گیا
سو بار لغزشوں کی قسم کھا کے چھوڑ دی
سو بار چھوڑنے کی قسم کھا کے پی گیا
مئے سی حسِین چیز اور واقعی حرام
میں کثرتِ شکوک میں گھبرا کے پی گیا
پیتا کہاں تھا صبحِ ازل میں بھلا عدمؔ
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا
خمار بارہ بنکوی
اب بخش یا نہ بخش مجھے اے میرے کریم
تیرے کرم کی آس پہ اترا کے پی گیا
بے اختیار توبہ سر بزم توڑ دی
ناصح نے ضد دلائی تو جھنجھلا کے پی گیا
توبہ کا تھا خیال مگر کیا کریں خمار
ساقی نے خود پلائی تو شرما کے پی گیا
احمد علی برقی اعظمی
کیف و سرورِ عشق میں بل کھا کے پی گیا
اُس کی نگاہِ مست سے للچا کے پی گیا
ساقی کے دستِ ناز میں دیکھا جو جامِ مے
قابو رہا نہ دل پہ وہاں جا کے پی گیا
تارِ وجود ہونے لگا مُرتَعِش مرا
اُٹّھی اک ایسی لہر کہ لہرا کے پی گیا
کچھ دیر انتظار کرو آ رہا ہوں میں
وہ مانتا نہیں تھا میں منوا کے پی گیا
اُس نے کہا کہ دُزدِ تہہِ جام ہے بچی
میں کہا کہ دے وہی اور لا کے پی گیا
مُجھ کو جنونِ شوق میں آیا نہ کچھ نظر
جو کچھ بھی آیا سامنے جھنجھلا کے پی گیا
مُجھ کو ازل سے بادۂ عرفاں عزیز تھی
دیوانہ وار اِس لئے میں جا کے پی گیا
ٹوٹے کہیں نہ رندِ بلا نوش کا بھرم
برقیؔ وفورِ شوق میں شرما کے پی گیا
صہیب رضا رزمی
سوچا کہ وعدہ ٹوٹے گا کھبرا کے پی گیا
ٹوٹا جو وعدہ پھر سے میں کھبرا کے پی گیا
وعدے کو میں نے توڑ کے یہ کیا کیا خدا
ایسی خطا پہ پھر سے میں کھبرا کے پی گیا
پینا نہیں تھا با خدا اب مان جائیے
آیا جو میرا یار تو شہ پا کے پی گیا
میں کیا کروں میں رکھ لیا رندوں کی آبرو
وہ سب بلانے آئے تو میں جا کے پی گیا
میں میکدے میں بھی نہیں پیتا شراب کو
ساقی کی پھر نگاہ کو میں پا کے پی گیا
وعدے کو توڑ کر کے میں پیتا یہ کیا مجال
میں شوخئی حیات سے گھبرا کے پی گیا
واعظ کی بات سر سے میرے جب گزر گئی
میں خود کو قول و قال میں الجھا کے پی گیا
واعظ سنا رہا تھا سزائے شراب کو
خوف سزا سے میں ذرا گھبرا کے پی گیا
واعظ بھی مجرم میخانہ ہے جناب
وہ مجھ کو باتوں باتوں میں الجھا کے پی گیا
میں خالی بیٹھا تھا باقی وہ رند تھے
اتنے میں گزرے تم کہ میں گھبرا کے پی گیا
تم جانتے ہو میں کبھی پیتا نہیں شراب
بوتل جو پاس پایا تو گھبرا کے پی گیا
خطا پی کر کیا لیکن خطا کیسے مٹاؤں اب
رحمت کا باب دیکھ کے بل کھا کے پی گیا
رزمی کی ہی خطا تھی کرو معاف اب جناب
معافی نہ مل سکی تو یہ گھبرا کے پی گیا
یہ جو ہم موت کے بستر پہ پڑے ہیں کب سے
تُو چلا آئے تو پھر ناچنے گانے لگ جائیں
ہم اگر تیری طرح بات بڑھانے لگ جائیں
پھر یہ محدود روابط بھی ٹھکانے لگ جائیں
اپنی معصوم سی آنکھوں کو بچائے رکھنا
دیکھنا اِن میں کہیں خواب نہ آنے لگ جائیں
کون آتا ہے زمانے کی گھڑی باتوں میں
چاہنے والے تو گمراہ نہیں ہو سکتے
تو نے کوشش تو بہت کی ہے مصنف ! لیکن
ہم کہانی میں بھی ہمراہ نہیں ہوسکتے....
کم سے کم تُو تو مِری ذات پہ اُنگلی نہ اُٹھا
لاکھ سورج ہوں مگر تجھ پہ تو سایہ ہوا ہوں
میثم علی آغاؔ
عجب مذاق رَوا ہے' یہاں نظام کے ساتھ
وہی یزید کے ساتھی ' وہی امام کے ساتھ
میں رات اُلجھتا رہا ' دِین اور دُنیا سے
غزل کے شعر بھی کہتا رہا 'سلام کے ساتھ
عمران عامی
جب نکلتا ہوں تیری محفل سے
مجھ کو رستہ نظر نہیں آتا
میں فقط اک نظر کا طالب ہوں
تم کو اتنا نظر نہیں آتا
صفی اورنگ آبادی
اُن کا آنچل ہے ، کہ رُخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چِلمن رنگیں
جانے اُس زُلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں
آج پھر حُسنِ دل آرا کی وہی دھج ہو گی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کاجَل کی لکیر
رنگِ رُخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غُبار
صندلی ہاتھ پہ دُھندلی سی حِنا کی تحریر
اپنے افکار کی، اشعار کی دُنیا ہے یہی
جانِ مضموں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی
آج تک سُرخ و سِیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟
موت اور زِیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گُزرے گی اجداد پہ کیا گُزری ہے؟
اِن دَمکتے ہُوئے شہروں کی فراواں مخلوُق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جِیا کرتی ہے؟
یہ حَسِیں کھیت ، پَھٹا پڑتا ہے جوبَن جن کا!
کِس لیے اِن میں فقط بُھوک اُگا کرتی ہے
یہ ہر اِک سمت پُراسرار کڑی دِیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اِک گام پہ اُن خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پر تو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ
یہ بھی ہیں ،ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے !
لیکن، اُس شوخ کے آہستہ سے کُھلتے ہُوئے ہونٹ
ہائے اُس جِسم کے کمبخت دِل آویز خطوُط
آپ ہی کہیے! کہیں ایسے فسُوں بھی ہوں گے؟
اپنا موضوعِ سُخن اِن کے سِوا، اور نہیں
طبع شاعر کا وَطن اِن کے سِوا اور نہیں
۔
فیض احمد فیضؔ
میرا کوئی بھی نہیں ، کائنات بھر میں ندیم
اگر خدا بھی نہ ھوتا تو میں کدِھر جاتا
(احمّد ندیم قاسمی)
فرقت نہ انتظار ہے، بس یادِ یار ہے
!اک پل میں بار بار ہے بس یادِ یار ہے
دنیا میں جس کے نام کا چرچا ہے، میں نہیں
!میرا کہاں شمار ہے ! بس یادِ یار ہے
بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی
دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا
دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی
جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں
جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی
ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں
عزت شائقین غم تھی جو رہی سہی گئی
بود و نبود کی تمیز، ایک عذاب تھی کہ تھی
یعنی تمام زندگی، دھند میں ڈوبتی گئی
اس کے جمال کا تھا دن، میرا وجود اور پھر
صبح سے دھوپ بھی گئی، رات سے چاندنی گئی
جب میں تھا شہر ذات کا تھا میرا ہر نفس عذاب
پھر میں وہاں کا تھا جہاں حالت ذات بھی گئی
گرد فشاں ہوں دشت میں سینہ زناں ہوں شہر میں
تھی جو صبائے سمت دل، جانے کہاں چلی گئی
تم نے بہت شراب پی اس کا سبھی کو دکھ ہے جون
اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے تم کو شراب پی گئی
بچهڑنے والوں نے آپس میں دوستی کر لی
یہ پہلی بار محبت میں کچه نیا ہوا ہے
اسی لیے تو میں اپنا خیال رکهتا ہوں
کسی نے مجھ کو ترا واسطہ دیا ہوا ہے
شاہد نواز
تا چند ز مسجد و نماز و روزہ
در میکدہ ہا مست شو از دریوزہ
خیام بخور بادہ کہ این خاک ترا
گہہ جام کنند ، گہہ سبو ، گہہ کوزہ
کب تک مسجد و نماز و روزہ میں مصروف رہے گا
میکدے میں جا دیوانہ بن اورگدا گری کر
اے خیام تو شراب پی کیونکہ تیری اس خاک سے
کبھی جام بنے گا ، کبھی صراحی و مٹکا اور کبھی کوزہ
ہر روز بر آنم کہ کنم شب توبہ
از جام و پیالۂ لبا لب توبہ
اکنوں کہ رسید وقت گل تر کم دہ
در موسم گل توبہ یا رب توبہ
ہر دن میں کہتا ہوں کہ آج رات توبہ کروں گا
بھرے ہو ئے جام و پیالہ سے توبہ کروں گا
لیکن بہار کا موسم آنے سے میرا ارادہ کمزور پڑ گیا ہے
موسم بہار میں توبہ کر لوں ارے توبہ توبہ
عمر خیام
من بندہ عاصیم ، رضای تو کجاست
تاریک دلم ، نور صفای تو کجاست
ما را تو بہشت اگر بہ طاعت بخشی
این مزد بود، لطف و عطای تو کجاست
میں گنہگار بندہ ہوں تیری بخشش کہاں ہے
میرا دل تاریک ہے تیرا شفاف نور کہاں ہے
جنت اگر ہیمں نیکیوں سے ملنی ہے تو
یہ تو مزدوری ہوئی تیری رحمتیں اور عنایتیں کہاں ہیں
عمر خیام
نی سیّو ! اسیں نیناں دے آکھے لگے
جینہاں پاک نگاہاں ہوئیاں ، کہیں نہیں جاندے ٹھگے
کالے پٹ نہ چڑھے سفیدی ، کاگ نہ تھیندے بگے
شاہ حسین شہادت پائیں ، مرن جو متراں اگے
دوستو! ہم نگاہوں کا کہنا مانتے ہیں
جن کی طرف پاک نگاہیں اُٹھ جاتی ہیں وہ کہیں بھی دھوکہ نہیں کھاتے
جیسے سیاہ ریشم پر سفید رنگ نہیں چڑھتا اور جیسا کہ کوّے سفید نہیں ہوتے
شاہ حسین وہ شہید ہوتے ہیں جو محبوب کی خاطر قربان ہو جاتے ہیں
شاہ حسین
عاشق ہوویں تاں عشق کماویں
راہ عشق سوئی دا ٹکا،دھاگہ ہویں تاں ہی جاویں
باہر پاک اندر آلودہ، کیہا توں شیخ کہاویں
کہے حسین جے فارغ تھیویں،تاں خاص مراتبہ پاویں
عاشق بننا ہے تو عشق حقیقی اختیار کر
عشق کا راستہ سوئی کے سوراخ کی مانند ہے ، دھاگے کی طرح ہو جا نفس کو مار کرپھر ہی گزرے گا
ظاہر پاک صاف ہے مگر اندر گندگی ہے تو خود کو شیخ کہلانا پسند کرتا ہے
حسین کہتا ہے کہ دنیاوی خواہشات سے فراغت حاصل کر جب ہی تو خاص مرتبہ پا سکے گا
شاہ حسین
تیز بارش میں کبھی سرد ہواؤں میں رہا
اک تیرا ذکر تھا جو میری صداؤں میں رہا
کتنے لوگوں سے میرے گہرے مراسم ہیں مگر
تیرا چہرہ ہی فقط میری دعاؤں میں رہا
کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن ملے صورتیں بدل کے
نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے
خمار بارہ بنکوی
خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی
جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں میری یاد میں محفوظ ہیں تیرے خد و خال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنا ہونا
زندگی معرکۂ روح و بدن ہے مشتاقؔ
عشق کے ساتھ ضروری ہے ہوس کا ہونا
میثم علی آغا...
قدم قدم پہ جہنم سہارتا ہوا میں
تمہارے ہجر سے خود کو گزارتا ہوا میں...
یہ پور پور اذیت میں ڈالتے ہوئے تم
یہ سانس سانس محبت پکارتا ہوا میں...
پھر ایک رات اذیت سے مر گیا تھا کہیں
تمہارے عشق کو اندر سے مارتا ہوا میں...
عجب نہیں ہے کسی روز قتل ہوجاؤں
تمہاری جان کا صدقہ اتارتا ہوا میں...
معاف کرنا ترا ساتھ دے نہیں پایا
پلٹ رہا ہوں محبت میں ہارتا ہوا میں...
تُو اب آلودہ ء دنیا ہے سو اس تخت کو چھوڑ
تُو اسی وقت مرے دل سے اتر جا مرے دوست !
ہاں ! مِرے پاس کوئی رمز کوئی فقر نہیں
سن لیا تُو نے ؟ چل اٹھ ! خیر سے گھر جا مِرے دوست !
تم سمجھتے ہو مجھے اِس کی کوئی فکر نہیں؟
میں تو خود دل سے یہ کہتا ہوں سُدھر جا مرے دوست !
یہ جو تُو روز ہی کہتا ہے " چلا جاؤں گا"
میں تو کہتا ہوں کہ یہ کام بھی کر جا مِرے دوست !