ہجر کی شام فسردہ تھی سو رخصت نہیں کی
اُس نے بھی صبر کیا, میں نے بھی عجلت نہیں کی
ایک سر سبز تعلق کو بچانے کے لیے
میں نے صحرا سے کنارہ کیا, وحشت نہیں کی
ایک شب میں تمہیں کیا کیا میں سکھاؤں مِرے دوست
تم نے کیا پہلے کسی سے بھی محبت نہیں کی
گفتگو رہتی ہے آنکھوں کی زبانی پہروں
میں نے اس کی ابھی آواز سماعت نہیں کی
یوں سلیقے سے سہے اُس کے روّیئے خود پر
اپنے آگے بھی کبھی اس کی شکائت نہیں کی
ہنسی آتی تھی مگر خود پہ بہت ظلم کیا
میں نے اک غم کی امانت میں خیانت نہیں کی
No comments:
Post a Comment