AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Tuesday, 17 July 2018

امجد اسلام امجد

محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی، جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائیدِ تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
یقیں کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو
ہزاروں طرح سے دلکش، حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے !
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفلِ سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بارہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے
کہ پودا اب کہاں تک ہے !
محبت کی طبیعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑنے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
"کہو مجھ سے محبت ہے !"
"کہو مجھ سے محبت ہے !"
"تمہیں مجھ سے محبت ہے !"
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سر زمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت کو سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو، کہ جیسے ہاتھ میں پارہ،
کہ جیسے شام کا تارہ !
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گماں کی شاخ پر آشیاں بنتا ہے الفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے، وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی راہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
" یہ سچ ہے ناں !
ہماری زندگی اک دوسرے کے نام لکھی تھی
یہ دھندلکا سا جو نگاہوں سے قریب و دور پھیلا ہے
اسی کا نام چاہت ہے !
تمہیں مجھ سے محبت تھی !
تمہیں مجھ سے محبت ہے !"
محبت کی طبیعت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے !

No comments:

Post a Comment