کیا کروں, کیسے کروں دوست کہ جب ہے ہی نہیں
جو محبت میں کشش ہوتی تھی, اب ہے ہی نہیں
اور کب تک اسے حیرانی سے دیکھے جاؤں
یار اس دنیا میں تو کچھ بھی عجب ہے ہی نہیں
جانتا ہوں کہ ہوس کیا ہے , ضرورت کیا ہے
مطمئن ہوں کہ مجھے کوئی طلب ہے ہی نہیں
جیسے جی چاہے یہاں خاک اڑاؤ تم بھی
دشت میں کوئی سلیقہ, کوئی ڈھب ہے ہی نہیں
کیا بتاؤں میں خدا اور اداسی کا پتہ
یوں بھی دونوں کا کوئی خاص سبب ہے ہی نہیں
No comments:
Post a Comment