ہوتی ہی نہیں ہم سے شناسا تری آنکھیں
ہیں جھیل تو کیوں رکھتی ہیں پیاسا تری آنکھیں
ٹھہرا ہی نہیں کوئی کبھی جن کے مقابل
وہ موج میں آیا ہوا دریا تری آنکھیں
صد جلوہء خوش رنگ لیے اپنی ادا میں
فطرت کا تراشا ہوا ہیرا تری آنکھیں
برہم ہیں تو رکھا ہے مرا ہاتھ بھی دل پر
توڑیں نہ کہیں آس کا رشتہ تری آنکھیں
کرتی ہیں پزیرائی بھی گو نازو ادا سے
دیتی ہیں مگر زخم بھی گہرا تری آنکھیں
No comments:
Post a Comment