بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
سو میرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئی
دل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیا
دل میں تھی ایک ہی تو بات، وہ جو فقط سہی گئی
جانے کیا تلاش تھی جون میرے وجود میں
جس کو میں ڈھونڈتا گیا جو مجھے ڈھونڈتی گئی
ایک خوشی کا حال ہے خوش سخن کے درمیاں
عزت شائقین غم تھی جو رہی سہی گئی
بود و نبود کی تمیز، ایک عذاب تھی کہ تھی
یعنی تمام زندگی، دھند میں ڈوبتی گئی
اس کے جمال کا تھا دن، میرا وجود اور پھر
صبح سے دھوپ بھی گئی، رات سے چاندنی گئی
جب میں تھا شہر ذات کا تھا میرا ہر نفس عذاب
پھر میں وہاں کا تھا جہاں حالت ذات بھی گئی
گرد فشاں ہوں دشت میں سینہ زناں ہوں شہر میں
تھی جو صبائے سمت دل، جانے کہاں چلی گئی
تم نے بہت شراب پی اس کا سبھی کو دکھ ہے جون
اور جو دکھ ہے وہ یہ ہے تم کو شراب پی گئی
No comments:
Post a Comment