احسان دانش
توبہ کی نازشوں پہ ستم ڈھا کے پی گیا
“پی“! اس نے جب کہا تو میں گھبرا کے پی گیا
دل ہی تو ہے اٹھائے کہاں تک غم و الم
میں روز کے ملال سے اکتا کے پی گیا
تھیں لاکھ گرچہ محشر و مرقد کی الجھنیں
گتھی کو ضبط شوق کی سلجھا کے پی گیا
مے خانۂ بہار میں مدت کا تشنہ لب
ساقی خطا معاف! خطا کھا کے پی گیا
نیت نہیں خراب نہ عادی ہوں اے ندیم!
“آلام روزگار سے تنگ آ کے پی گیا“!
ساقی کے حسن دیدۂ میگوں کے سامنے
میں جلوۂ بہشت کو ٹھکرا کے پی گیا
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
دل کچھ ثبوت حفظ شریعت نہ دے سکا
ساقی کے لطف خاص پہ اترا کے پی گیا!
جگر مراد آبادی
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا‘ لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے‘ تھرا کے پی گیا
زاہد‘ یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِخاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن‘ یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم‘ بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
ساغر صدیقی
میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں ، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک درد ناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
عبدالحمید عدم
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے، میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے غیض کو بھڑکا کے پی گیا
صد ہا مطالبات کے بعد ایک جامِ تلخ
دنیائے جبر و صبر کو دھڑکا کے پی گیا
سو بار لغزشوں کی قسم کھا کے چھوڑ دی
سو بار چھوڑنے کی قسم کھا کے پی گیا
مئے سی حسِین چیز اور واقعی حرام
میں کثرتِ شکوک میں گھبرا کے پی گیا
پیتا کہاں تھا صبحِ ازل میں بھلا عدمؔ
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا
خمار بارہ بنکوی
اب بخش یا نہ بخش مجھے اے میرے کریم
تیرے کرم کی آس پہ اترا کے پی گیا
بے اختیار توبہ سر بزم توڑ دی
ناصح نے ضد دلائی تو جھنجھلا کے پی گیا
توبہ کا تھا خیال مگر کیا کریں خمار
ساقی نے خود پلائی تو شرما کے پی گیا
احمد علی برقی اعظمی
کیف و سرورِ عشق میں بل کھا کے پی گیا
اُس کی نگاہِ مست سے للچا کے پی گیا
ساقی کے دستِ ناز میں دیکھا جو جامِ مے
قابو رہا نہ دل پہ وہاں جا کے پی گیا
تارِ وجود ہونے لگا مُرتَعِش مرا
اُٹّھی اک ایسی لہر کہ لہرا کے پی گیا
کچھ دیر انتظار کرو آ رہا ہوں میں
وہ مانتا نہیں تھا میں منوا کے پی گیا
اُس نے کہا کہ دُزدِ تہہِ جام ہے بچی
میں کہا کہ دے وہی اور لا کے پی گیا
مُجھ کو جنونِ شوق میں آیا نہ کچھ نظر
جو کچھ بھی آیا سامنے جھنجھلا کے پی گیا
مُجھ کو ازل سے بادۂ عرفاں عزیز تھی
دیوانہ وار اِس لئے میں جا کے پی گیا
ٹوٹے کہیں نہ رندِ بلا نوش کا بھرم
برقیؔ وفورِ شوق میں شرما کے پی گیا
صہیب رضا رزمی
سوچا کہ وعدہ ٹوٹے گا کھبرا کے پی گیا
ٹوٹا جو وعدہ پھر سے میں کھبرا کے پی گیا
وعدے کو میں نے توڑ کے یہ کیا کیا خدا
ایسی خطا پہ پھر سے میں کھبرا کے پی گیا
پینا نہیں تھا با خدا اب مان جائیے
آیا جو میرا یار تو شہ پا کے پی گیا
میں کیا کروں میں رکھ لیا رندوں کی آبرو
وہ سب بلانے آئے تو میں جا کے پی گیا
میں میکدے میں بھی نہیں پیتا شراب کو
ساقی کی پھر نگاہ کو میں پا کے پی گیا
وعدے کو توڑ کر کے میں پیتا یہ کیا مجال
میں شوخئی حیات سے گھبرا کے پی گیا
واعظ کی بات سر سے میرے جب گزر گئی
میں خود کو قول و قال میں الجھا کے پی گیا
واعظ سنا رہا تھا سزائے شراب کو
خوف سزا سے میں ذرا گھبرا کے پی گیا
واعظ بھی مجرم میخانہ ہے جناب
وہ مجھ کو باتوں باتوں میں الجھا کے پی گیا
میں خالی بیٹھا تھا باقی وہ رند تھے
اتنے میں گزرے تم کہ میں گھبرا کے پی گیا
تم جانتے ہو میں کبھی پیتا نہیں شراب
بوتل جو پاس پایا تو گھبرا کے پی گیا
خطا پی کر کیا لیکن خطا کیسے مٹاؤں اب
رحمت کا باب دیکھ کے بل کھا کے پی گیا
رزمی کی ہی خطا تھی کرو معاف اب جناب
معافی نہ مل سکی تو یہ گھبرا کے پی گیا
No comments:
Post a Comment