AddThis

Welcome, as the name suggests, this blog is all about fantasy, literature, art and storytelling. Feedback/suggestions are welcomed. Enjoy! and follow for regular updates...

Wednesday, 25 July 2018

فیض احمد فیض

اُن کا آنچل ہے ، کہ رُخسار ، کہ پیراہن ہے
کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چِلمن رنگیں
جانے اُس زُلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں
ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں

آج پھر حُسنِ دل آرا کی وہی دھج ہو گی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں، وہی کاجَل کی لکیر
رنگِ رُخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غُبار
صندلی ہاتھ پہ دُھندلی سی حِنا کی تحریر

اپنے افکار کی، اشعار کی دُنیا ہے یہی
جانِ مضموں ہے یہی ، شاہدِ معنی ہے یہی

آج تک سُرخ و سِیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے ؟
موت اور زِیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گُزرے گی اجداد پہ کیا گُزری ہے؟

اِن دَمکتے ہُوئے شہروں کی فراواں مخلوُق
کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جِیا کرتی ہے؟
یہ حَسِیں کھیت ، پَھٹا پڑتا ہے جوبَن جن کا!
کِس لیے اِن میں فقط بُھوک اُگا کرتی ہے

یہ ہر اِک سمت پُراسرار کڑی دِیواریں
جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ
یہ ہر اِک گام پہ اُن خوابوں کی مقتل گاہیں
جن کے پر تو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ

یہ بھی ہیں ،ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے !
لیکن، اُس شوخ کے آہستہ سے کُھلتے ہُوئے ہونٹ
ہائے اُس جِسم کے کمبخت دِل آویز خطوُط
آپ ہی کہیے! کہیں ایسے  فسُوں بھی ہوں گے؟

اپنا موضوعِ سُخن اِن کے سِوا،  اور نہیں
طبع شاعر کا وَطن اِن کے سِوا اور نہیں
۔
فیض احمد فیضؔ

No comments:

Post a Comment