نظم: پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
شاعر: سلیم کوثر
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں، جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی۔۔۔۔۔ اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے
جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہی
ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہی
دل گرفتہ ہیں طلسمات غم ہستی سے
سانس لینے سے فسوں کاریِ جاں ٹوٹتی ہے
اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہی ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے
تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص ِ جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑتی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے
ایک دھن ہے جو سنائئی نہیں دیتی پھر بھی
لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگام ِ ستم
کو بہ کو پھیلتا جاتا ہےغبار ِ من و تو
روح سے خالی ہوے جاتے ہے جسموں کے حرم
وقت بے رحم ہے، ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
دشتِ مژگاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے
روزنِ وقت سے آغاز سفر کرتی ہے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلقہء امروز کے رنگ
گرمیء وعدہٴ فردا سے پگھلتے ہوے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر میں جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی فصلوں کی طرح
برّ ِ اعظم کی لکیروں سے ابھرتے ہوے لوگ
امن کے نام پہ بارود بھری دنیا میں
خس و خاشاک کی مانند بکھرتے ہوے لوگ
روز جیتے ہوئے اور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ہے کہیں، اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں
جس میں اک معرکہء سود و زیاں جاری ہے
پاؤں رکھے ہوے بارود پہ سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوے پروانہء شب
آستینوں میں چھپائے ہوے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوے دیکھتے ہیں خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے، صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہء امکانِ سحر میں اب کے
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
دیکھئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں
دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں
آ۔۔۔ کہ یہ منظر ِ خوں بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر ِ آئندہ کا
چشم کھولے ہوے بیٹھی ہے دکانِ گریہ
اور اسی منظر ِ خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحہء موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دستِ خالی میں لیے کاسہء سر پھرتے ہیں
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے
چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو
آدمی وہ ہے جسے جیتے جی
صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ہو
چاک ہو جائے جو اک بار حوس کے ہاتھوں
جامہء عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے
آسماں میری زمینوں پہ جھکا ہے لیکن
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment