آگئیں چل کے ہوائیں تیرے دیوانے تک
اب یہی لے کے چلیں گی اُسے میخانے تک
کوئی چھیڑے نہ مجھے عہدِ بہار آنے تک
میں پہنچ جاؤں گا خود جھوم کے میخانے تک
آکے خود رقص کیا کرتا ہے جل جانے تک
شمعِ سوزاں کبھی جاتی نہیں پروانے تک
آنا جانا تو ہے واعظ ! میرے کاشانے تک
ایک دن آپ چلے آؤ گے میخانے تک
اب نقاہت کا یہ عالم ہے کہ اُٹھتے نہیں ہاتھ
صرف نظریں ہی پہنچ سکتی ہیں پیمانے تک
اِس کڑے وقت میں احباب نہ کام آئیں گے
تشنگی دے گی سہارا مجھے میخانے تک
دھیان زاہد کا خدا تک کسی صورت نہ گیا
دسترس تھی اُسے تسبیح کے ہر دانے تک
تجھ کو بھولے سے بھی مَیں بُھول سکوں، ناممکن
یہ تعلق تو رہے گا میرے مر جانے تک
دل پہ عالم یہ گُھٹن کا ، یہ صبا کے غمزے
دیکھئے کیا ہو ، تری زلف کے لہرانے تک
راہ دُشوار نہیں ، سنگ نہیں ، خار نہیں
مُطمئن ہو کے وہ آئیں میرے کاشانے تک
تم تو اپنے تھے ، نہ تھی تم سے یہ اُمّید ہمیں
کوئی مرتا ہو تو آ جاتے ہیں بیگانے تک
آج کل بیخودیِ شوق کا عالم ہے عجیب
کہیں مَیں آپ نہ کھو جاؤں تجھے پانے تک
موت برحق ہے ، مگر آخری خواہش یہ ہے
سانس چلتی رہے میری ، تیرے آ جانے تک
بات کرنی ہے نکیرین سے تنہا سب کو
ساتھ رہتے ہیں یہ احباب تو دفنانے تک
مَسندِ پیرِ مغاں دُور بہت ہے مجھ سے
ہاتھ اُٹھ کر بھی پہنچتے نہیں پیمانے تک
قدم اُٹھتے نہیں ، اب ضعف کا عالم ہے نصیرؔ
کوئی لے جاۓ مجھے تھام کے میخانے تک
پیر نصیر الدین نصیر
No comments:
Post a Comment