غزل
سَــمَے نہ دیکھ ' ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے
میں روک دوں گا کسی وقت بھی ، گھڑی ہی تو ہے
حَسین ہوتی ہے مرضی کی مَوت ، سامنے دیکھ!
یہ آبشــار بھی دریا کی خود کشی ہی تو ہے
بھٹکتا رہتا ہوں دن بھر اجــاڑ کمروں میں
وســیع گھر میں تجــُّرد بھی بے گھری ہی تو ہے
ترا جنون ہے جب تک، تو حَــظ اٹھا، خوش رہ
کہ عارضہ ہے ، مِرے دوست! عارضی ہی تو ہے
ترے بدن کے مطابق ڈھلے گی کچھ دن تک
ابھی چُبھے گی اداسی ، ابھی نئی ہی تو ہے
ہمارے دین میں جائز ہے تین روز کا سوگ
بچھڑ کے اُس سے ابھی رات دوسری ہی تو ہے
( عُمیــــر نجـــمـیؔ )
No comments:
Post a Comment