کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کِھلتا ہے
یہی وہ پھول ہے جو زیر ِ آب کھلتا ہے
قبائے سرخ سنہرا بدن بھی چاہتی تھی
کہاں ہر ایک پہ رنگ ِ شراب کھلتا ہے
یہ کون ہے کہ دریچے شگفت ہونے لگے
جھروکے پھوٹتے ہیں ، بند باب کھلتا ہے
کسی کسی کو میسر ہے جستجو تیری
کسی کسی پہ یہ باغ ِ سراب کھلتا ہے
لہو کی باس ہواؤں میں رچنے بسنے لگی
کھلا وہ زخم کہ جیسے گلاب کھلتا ہے
گل ِ سخن بھی ہے غالب کی مے کشی جیسا
بروز ِ ابر و شب ِ ماہتاب کھلتا ہے
No comments:
Post a Comment