یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آگئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آگئے
یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آگئے
پھر اس طرح ہوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دیوار آگئے
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آگئے
آواز دے کہ چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آگئے
No comments:
Post a Comment