عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا
موڑ آیا ساتھ چھوٹا اور کیا
کون سچ کہتا ہے سچ سنتا ہے کون
میں بھی جھوٹا تو بھی جھوٹا اور کیا
جان سے جانا ضروری تو نہیں
عاشقی میں سر تو پھوٹا اور کیا
ہوتے ہوتے لعل پتھر ہو گئے
رفتہ رفتہ رنگ چھوٹا اور کیا
رہ گیا تھا یاد کا رشتہ فقط
آخرش یہ پل بھی ٹوٹا اور کیا
اس کی آنکھیں بھی کھبی سچ بولتی
دل تو تھا جھوٹوں سے جھوٹا اور کیا
غیر تو تھے غیر اپنے آپ کو
سب سے بڑھ کر ہم نے لوٹا اور کیا
اس قدر کافی تھی یاد کربلا
روئے دھوئے سینہ کوٹا اور کیا
آؤ دیکھو تو ذرا باغِ وفا
اب کوئی گل ہے نہ بوٹا اور کیا
فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فرازؔ
اپنا دل ہو یا کہوٹا اور کیا
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment