تُو مجھ کو سن رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا؟
یہ کچھ الزام ہیں میرے، صفائی کیوں نہیں دیتا؟
میں تجھ کو دیکھنے سے کس لئے محروم رہتا ہوں
عطا کرتا ہے جب نظریں رسائی کیوں نہیں دیتا؟
مرے ہنستے ہوئے لہجے سے دھوکہ کھا رہے ہو تم
مرا اُترا ہوا چہرا دکھائی کیوں نہیں دیتا؟
نظر انداز کر رکّھا ہے دنیا نے تجھے کب سے
کسی دن اپنے ہونے کی دُھائی کیوں نہیں دیتا؟
کئی لمحے چرا کر رکھ لئے تُو نے الگ مجھ سے
تُو مجھ کو زندگی بھر کی کمائی کیوں نہیں دیتا؟
خود اپنے آپ کو ہی گھیر کر بیٹھا ہے تُو کب سے
اب اپنے آپ سے خود کو رہائی کیوں نہیں دیتا؟
میں تجھ کو جیت جانے کی مبارکباد دیتا ہوں
تُو مجھ کو ہار جانے کی بدھائی کیوں نہیں دیتا؟
(منیش شکلا)
No comments:
Post a Comment