یہاں آیا ھُوں اپنے عزم کو پہچان کر مَیں
سو دشتِ عشق میں چلتا ھُوں سینہ تان کر مَیں
رحمان فارس
یہاں آیا ھُوں اپنے عزم کو پہچان کر مَیں
سو دشتِ عشق میں چلتا ھُوں سینہ تان کر مَیں
رحمان فارس
میں اُٹھتا ہوں تو کانٹے پاؤں پڑ پڑ کر یہ کہتے ہیں
اجی بیٹھو بھی، کیوں ویران کرتے ہو بیاباں کو
(امیر مینائی)
غزل
سَــمَے نہ دیکھ ' ابھی گفتگو چلی ہی تو ہے
میں روک دوں گا کسی وقت بھی ، گھڑی ہی تو ہے
حَسین ہوتی ہے مرضی کی مَوت ، سامنے دیکھ!
یہ آبشــار بھی دریا کی خود کشی ہی تو ہے
بھٹکتا رہتا ہوں دن بھر اجــاڑ کمروں میں
وســیع گھر میں تجــُّرد بھی بے گھری ہی تو ہے
ترا جنون ہے جب تک، تو حَــظ اٹھا، خوش رہ
کہ عارضہ ہے ، مِرے دوست! عارضی ہی تو ہے
ترے بدن کے مطابق ڈھلے گی کچھ دن تک
ابھی چُبھے گی اداسی ، ابھی نئی ہی تو ہے
ہمارے دین میں جائز ہے تین روز کا سوگ
بچھڑ کے اُس سے ابھی رات دوسری ہی تو ہے
( عُمیــــر نجـــمـیؔ )
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﺎ ﺍﮔﺮ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﮔﻠﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﮕﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻮ ﺑﺎﺭ ﺗﺮﮎِ ﻣﮯ ﮐﺸﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺨﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ
ﻭﮦ ﺟﻠﻮﮦ، ﺟﻠﻮۂ ﺟﺎﻧﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﺗﺮﮮ ﻣﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﺮﺍ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮐّﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺲ ﺩﻝ ﮐﻮ
ﻗﺘﯿﻞؔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺑُﺘﺨﺎﻧﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﮯ
ﻗﺘﯿﻞؔ ﺷﻔﺎﺋﯽ
غزل
(رحمان فارس)
۔
جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے
نکتہ چیں! شوق سے دن رات مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں، ہنر بچتا ہے
سارے ڈر بس اسی ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
یار کھو جائے تو پھر کون سا ڈر بچتا ہے
روز پتھراؤ بہت کرتے ہیں دنیا والے
روز مر مر کے مرا خواب نگر بچتا ہے
غم وہ رستہ ہے کہ شب بھر اسے طے کرنے کے بعد
صبحدم دیکھیں تو اتنا ہی سفر بچتا ہے
بس یہی سوچ کے آیا ہوں تری چوکھٹ پر
دربدر ہونے کے بعد اک یہی در بچتا ہے
اب مرے عیب زدہ شہر کے شر سے صاحب!
شاذ و نادر ہی کوئی اہل ہنر بچتا ہے
عشق وہ علم ریاضی ہے کہ جس میں فارس
دو سے جب ایک نکالیں تو صفر بچتا ہے
عقل گرداند کہ دل در بندِ زلفش چوں خوش است
عاقلاں دیوانہ گردند از پئے زنجیر مَا
(حافظ شیرازی)
اگر عقل کو یہ معلوم ہوتا کہ دلِ محبوب کی زلف کا قیدی ہوکے اتنا خوش ہے تو عقلمند لوگ اس زنجیر میں گرفتار ہونے کو دیوانے ہو اٹھتے
۔وحشتیں بڑھتیں گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غمخوار کے ساتھ
ہم نے اک عمر گزاری ہے غمِ یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق میں عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
اس قدر خوف ہے اس شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ایک تو خواب لئے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ!
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجئے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
جو شرف ہم کو ملا کوچہء جاناں سے فراز
سرِمقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
**احمد فراز**
یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آگئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آگئے
یوسف نہ تھے مگر سرِ بازار آگئے
خوش فہمیاں یہ تھیں کہ خریدار آگئے
ہم کج ادا چراغ کہ جب بھی ہوا چلی
طاقوں کو چھوڑ کر سرِ دیوار آگئے
پھر اس طرح ہوا مجھے مقتل میں چھوڑ کر
سب چارہ ساز جانبِ دیوار آگئے
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوؤں میں ہے
اب کہ مقابلے پہ میرے یار آگئے
آواز دے کہ چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے
سورج کی روشنی پہ جنہیں ناز تھا فراز
وہ بھی تو زیرِ سایۂ دیوار آگئے
بحریست بحرِ عشق کہ بہیچش کنارہ نیست
آن جا جُز اینکہ جاں بسپارند چارہ نیست
عشق کا سمندر ایسا سمندر ہے جِس کا کوئی کنارہ نہیں،وہاں بجُز جان دینے کے اور کوئی چارہ نہیں۔۔
آں دم کہ دِل بہ عشق دہی خوش دمے بود
در کارِ خیر حاجتِ ہیچ اِستخارہ نیست
جِس وقت بھی دِل کو عشق میں لگا دو وہی وقت اچھا ہو گا،کیونکہ نیک کام کرنے کے لئے کِسی اِستخارہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔
مارا بمنعِ عقلِ مترسان و مے بیار
کآں شحنہ در وِلایتِ ما ہیچ کارہ نیست
عقل کی ممانعت کی وجہ سے ہمیں عشق سے نہ ڈرا اور شراب لا،اِس لئے کہ عقل ایسا سپاہی ہے جِس کا مُلکِ عشق میں کوئی کام نہیں۔۔
از چشمِ خود بپُرس کہ مارا کہ میکُشد
جاناں گناہِ طالع و جرمِ ستارہ نیست
اپنی آنکھ سے پوچھ کہ ہمیں کون قتل کر رہا ہے؟ میری جان یہ نصیبہ کی خطا یا ستارے کا جرم نہیں بلکہ تیری آنکھ کا ہے۔۔
رُویش بچشمِ پاک تواں دید چوں ہِلال
ہر دیدہ جائے جلوہء آں ماہ پارہ نیست
اِس کا چہرہ ہلال کی طرح پاک نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے،کیونکہ ہر آنکھ اُس ماہ پارے کے جلوے کی جگہ نہیں ہے۔۔
فُرصت شُمر طریقہء رِندی کہ ایں نِشاں
چوں راہِ گنج ہر ہمہ کس آشکارہ نیست
رِندی کے راستے کو غنیمت سمجھ اِس لئے کہ یہ نِشان خزانے کے راستے کی مانند ہر شخص پر آشکارہ نہیں۔۔
نگرفت در تو گِریہء حافظ بہیچ روی
حیرانِ آں دِلم کہ کم از سنگِ خارہ نیست
حافظ کی گریہ و زاری نے کِسی طرح بھی تجھ پر اثر نہ کیا،میں تو تیرے دِل پر حیران ہوں جو کِسی طرح بھی سنگِ خارہ سے کم نہیں ہے۔۔
حافظ شیرازی
عشق بس ایک کرشمہ ہے، فسوں ہے، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے
جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان !! تماشا کرنے ؟؟
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے
تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے، یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے، یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے، یوں ہے
احمد فراز
عمر بھر کا مان ٹوٹا اور کیا
موڑ آیا ساتھ چھوٹا اور کیا
کون سچ کہتا ہے سچ سنتا ہے کون
میں بھی جھوٹا تو بھی جھوٹا اور کیا
جان سے جانا ضروری تو نہیں
عاشقی میں سر تو پھوٹا اور کیا
ہوتے ہوتے لعل پتھر ہو گئے
رفتہ رفتہ رنگ چھوٹا اور کیا
رہ گیا تھا یاد کا رشتہ فقط
آخرش یہ پل بھی ٹوٹا اور کیا
اس کی آنکھیں بھی کھبی سچ بولتی
دل تو تھا جھوٹوں سے جھوٹا اور کیا
غیر تو تھے غیر اپنے آپ کو
سب سے بڑھ کر ہم نے لوٹا اور کیا
اس قدر کافی تھی یاد کربلا
روئے دھوئے سینہ کوٹا اور کیا
آؤ دیکھو تو ذرا باغِ وفا
اب کوئی گل ہے نہ بوٹا اور کیا
فتنہ سامانی میں یکساں ہیں فرازؔ
اپنا دل ہو یا کہوٹا اور کیا
احمد فرازؔ
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
جس کی آواز میں سِلوٹ ہو، نگاہوں میں شکن
ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جوبہتا ہے اُسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا کرتے
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
شہد جینے کا مِلا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کیلئے دِل نہیں تھوڑا کرتے
جمع ہم ہوتے ہیں ، تقیسم بھی ہوجاتے ہیں
ہم تو تفریق کے ہندسے نہیں جوڑا کرتے
جاکے کہسار سے سرمارو کہ آواز تو ہو
خستہ دِیواروں سے ماتھا نہیں پھوڑا کرتے
ھم نے دیکھی ھے
اِن آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ھاتھ سے چُھو کے اِسے
رشتوں کا الزام نہ دو
صرف احساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
پیار کوئی بول نہیں
پیار آواز نہیں
ایک خاموشی ھے
سنتی ھے ، کہا کرتی ھے
نہ یہ بُجھتی ھے نہ رُکتی
نہ ٹھہری ھے کہیں
نُور کی بُوند ھے
صدیوں سے بہا کرتی ھے.
مُسکراھٹ سی کِھلی رھتی ھے
آنکھوں میں کہیں
اور پلکوں پہ اُجالے سے
جُھکے رھتے ھیں
ھونٹ کچھ کہتے نہیں
کانپتے ھونٹوں پہ مگر
کتنے خاموش سے افسانے
رُکے رھتے ھیں
صرف اَحساس ھے یہ
رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ھی رھنے دو
کوئی نام نہ دو
”گلزار“
اے بے خودی ٹھہر کہ بہت دن گزر گئے
مجھ کو خیالِ یار کہیں ڈھونڈتا نہ ہو
ساحل پہ جا لگے گی یوں ہی کشتیِ حیات
اپنا خدا تو ہے جو نہیں نا خدا نہ ہو
اچھا حجاب ہے کہ جب آتے ہیں خواب میں
پھر پھر کے دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
دل ہی نہیں ہے جس میں نہ ہو درد عشق کا
وہ درد ہی نہیں ہے جو ہر دم سوا نہ ہو
فانیؔ بدایونی
من رانده ز ميخانه ام از من بگريزيد
سرگشته چو پيمانه ام از من بگريزيد
میں راندۂ میخانہ ہوں، مجھ سے دور رہو۔۔۔
جام کی مانند پریشان ہوں، مجھ سے دور رہو
بر ظاهر آباد من اميد مبنديد
من خانه ی ويرانه ام از من بگريزيد
میری ظاہری خوشحالی پر پُر امید نہ ہو۔۔۔
میں تو خانۂ ویران ہوں، مجھ سے دور رہو
آن سيل جنونم که به جان آمده از کوه
بنيان کن کاشانه ام از من بگريزيزد
میں پہاڑ سے آیا جنون کا سیلاب ہوں جو اپنی زندگی بہا لے گیا۔۔۔
میں اُجڑا ہوا گھر ہوں، مجھ سے دور رہو
مترجم: شاہریز اَمَر
مجبور جوانی میڈی اے تو حسن دا شاہ تیکوں کیا پروا
توخوش وسدیں وچ غیراں دے میڈی جھوک تباہ تیکوں کیا پروا
تیڈے رستے وچ پئے پھل کردن میڈے اوکھے راہ تیکوں کیا پروا
بھانویں شاکر تیڈی مونجھ کنوں میڈے نکلن ساہ تیکوں کیا پروا
ﻣﯿﮉﯼ ﻋﺮﺽ ﺳﻤﺠﮫ ﯾﺎ مرﺽ سمجھ
ﯾﺎ ﺳﻤﺠﮫ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﺗﮯ ول آ
ﺗﯿﮉﮮ ڈﯾﮑﮭﻨﮍ ﺩﯼ ﺍﻧﮩﺎﮞ اکھیاں کوں
ﮨﮯ ﺗﺎﻧﮓ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﮯ ﻭﻝ ﺁ
ﮨﻨﮍ ﺩﻝ ﮐﻤﻼ ﻧﺊ ﺳﮩﮧ ﺳﮕﺪﺍ
کوئی ﺩﺭﺩ ﻣﺰﯾﺪ ﺗﮯ ﻭﻝ آ
نئیں ﭘﭽﮭﻠﯽ ﻋﯿﺪ ﻣﻨﺎئی ﺷﺎﮐﺮ
میڈﺍ ﭼﻦ ﺍﺱ ﻋﯿﺪ ﺗﮯ ﻭﻝ ﺁ
اساں ماڑھے ھیں چلوماڑھے سہی.ساڈے شکوے کر تیڈا حق بنڑدے.
ساکوں ڈکھ دی پھانسی لا ڈھولاساڈے ڈکھ نہ بھر تیڈاحق بنڑدے.
اساں موتی تاں انمول ھاسےساکوں آکھ پتھر تیڈا حق بنڑدے..
تیکوں مفت جو "شاکر" لبھ گۓ ھیں ساڈی قدرنہ کرتیڈاحق بنڑدے..!
کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کِھلتا ہے
یہی وہ پھول ہے جو زیر ِ آب کھلتا ہے
قبائے سرخ سنہرا بدن بھی چاہتی تھی
کہاں ہر ایک پہ رنگ ِ شراب کھلتا ہے
یہ کون ہے کہ دریچے شگفت ہونے لگے
جھروکے پھوٹتے ہیں ، بند باب کھلتا ہے
کسی کسی کو میسر ہے جستجو تیری
کسی کسی پہ یہ باغ ِ سراب کھلتا ہے
لہو کی باس ہواؤں میں رچنے بسنے لگی
کھلا وہ زخم کہ جیسے گلاب کھلتا ہے
گل ِ سخن بھی ہے غالب کی مے کشی جیسا
بروز ِ ابر و شب ِ ماہتاب کھلتا ہے
راہ ِ وفا میں ہر سو کانٹے دھوپ زیادہ سائے کم
لیکن اس پر چلنے والے خوش ہی رہے پچھتائے کم
آہ یہ ظالم تلخ حقیقت جتنے بھی سفینے غرق ہوئے
اکثر اپنی موج میں ڈوبے طوفاں سے ٹکرائے کم
راہروی کا سب کو دعویٰ سب کو غرورِ عشق و وفا
راہِ وفا پر چلنے والے ہم نے لیکن پائے کم
دھیمی دھیمی چال سے ہم کو راہگذر طے کرنی ہے
ناز تھا جن کو تیز روی پر منزل تک وہ آئے کم
مجھ سے شکایت دنیا بھر کو شدتِ غم میں رونے کی
لیکن مجھ کو اس کا رونا آنکھ میں آنسو آئے کم
صرف یہی ہے ایک طریقہ دنیا میں خوش رہنے کا
دستِ تمنا کھینچے زیادہ دامنِ دل پھیلائے کم
صبر و سکوں کی دنیا لوٹے حسن دکھا کر جلووں کو
عشق مگر خود شب بھر تڑپے اوروں کو تڑ پائے کم
عشق ادب کا نام ہے کیفی یہ بھی ادب میں شامل ہے
جس کی محبت دل میں بسی ہو اس کی گلی میں جا ئے کم
محمد زکی کیفی
ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﭺ ﮐﻮﺉ ﻧﺌﯿﮟ ﻣﻞ ﮐﻮﺉ
ﻧﺌﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﮈﮬﻮﻝ ﺩﯼ ﺍﮐﮫ ﺳﺮﻣﺊ ﺩﺍ
ﺩﺳﮯ ﻧﻘﺸﮧ ﭼﺸﻢ ﺩﮮ ﮈﻭﺭﯾﺎﮞ
ﭼﻮﮞ ﮐﺴﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺳﺪﯼ ﭘﺊ ﺩﺍ
ﺟﺪﺍﮞ ﻭﯾﮑﮫ ﻧﻮﯾﺪ ﺗﺨﯿﻞ ﻭﭺ
ﺍﻭﮨﺪﮮ ﻣﮑﮫ ﻣﮩﺘﺎﺏ ﻧﻮﮞ لئی ﺩﺍ
ﻧﺸﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﻭﮨﻨﺪﯾﺎﮞ ﮨﻮ ﻭﯾﻨﺪﺍﺍﮮ
ﺩﻝ ﺣﺴﻦ ﭘﺮﺳﺖ ﻧﺸﺊ ﺩﺍ
لکھ کوشش کر میکوں بھلنڑ دی پر شام سحر تیکوں یاد آساں.
جڈاں تھک کے ڈھول سرانڑے تے توں رکھسیں سر تیکوں یاد آساں.
اج رش ہے نویاں یاریاں دا ذرا حوصلہ کر تیکوں یاد آساں.
هالے قدر غریب دی نی تیکوں جڈاں ویساں مرتیکوں یادآساں..
تیڈے شاکر سر دی چھاں ہاں میں
جداں ڈھل ویساں تیکوں یاد آساں
تُو مجھ کو سن رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا؟
یہ کچھ الزام ہیں میرے، صفائی کیوں نہیں دیتا؟
میں تجھ کو دیکھنے سے کس لئے محروم رہتا ہوں
عطا کرتا ہے جب نظریں رسائی کیوں نہیں دیتا؟
مرے ہنستے ہوئے لہجے سے دھوکہ کھا رہے ہو تم
مرا اُترا ہوا چہرا دکھائی کیوں نہیں دیتا؟
نظر انداز کر رکّھا ہے دنیا نے تجھے کب سے
کسی دن اپنے ہونے کی دُھائی کیوں نہیں دیتا؟
کئی لمحے چرا کر رکھ لئے تُو نے الگ مجھ سے
تُو مجھ کو زندگی بھر کی کمائی کیوں نہیں دیتا؟
خود اپنے آپ کو ہی گھیر کر بیٹھا ہے تُو کب سے
اب اپنے آپ سے خود کو رہائی کیوں نہیں دیتا؟
میں تجھ کو جیت جانے کی مبارکباد دیتا ہوں
تُو مجھ کو ہار جانے کی بدھائی کیوں نہیں دیتا؟
(منیش شکلا)
امجد اسلام امجد
یہ رُکے رُکے سے آنسو، یہ دبی دبی سی آہیں
یونہی کب تلک خدایا، غم زندگی نباہیں
کہیں ظلمتوں میں گھِر کر، ہے تلاشِ دست رہبر
کہیں جگمگا اُٹھی ہیں مرے نقشِ پا سے راہیں
ترے خانماں خرابوں کا چمن کوئی نہ صحرا
یہ جہاں بھی بیٹھ جائیں وہیں ان کی بارگاہیں
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں
مرے عہد میں نہیں ہے، یہ نشانِ سر بلندی
یہ رنگے ہوئے عمامے یہ جھکی جھکی کُلاہیں
آگئیں چل کے ہوائیں تیرے دیوانے تک
اب یہی لے کے چلیں گی اُسے میخانے تک
کوئی چھیڑے نہ مجھے عہدِ بہار آنے تک
میں پہنچ جاؤں گا خود جھوم کے میخانے تک
آکے خود رقص کیا کرتا ہے جل جانے تک
شمعِ سوزاں کبھی جاتی نہیں پروانے تک
آنا جانا تو ہے واعظ ! میرے کاشانے تک
ایک دن آپ چلے آؤ گے میخانے تک
اب نقاہت کا یہ عالم ہے کہ اُٹھتے نہیں ہاتھ
صرف نظریں ہی پہنچ سکتی ہیں پیمانے تک
اِس کڑے وقت میں احباب نہ کام آئیں گے
تشنگی دے گی سہارا مجھے میخانے تک
دھیان زاہد کا خدا تک کسی صورت نہ گیا
دسترس تھی اُسے تسبیح کے ہر دانے تک
تجھ کو بھولے سے بھی مَیں بُھول سکوں، ناممکن
یہ تعلق تو رہے گا میرے مر جانے تک
دل پہ عالم یہ گُھٹن کا ، یہ صبا کے غمزے
دیکھئے کیا ہو ، تری زلف کے لہرانے تک
راہ دُشوار نہیں ، سنگ نہیں ، خار نہیں
مُطمئن ہو کے وہ آئیں میرے کاشانے تک
تم تو اپنے تھے ، نہ تھی تم سے یہ اُمّید ہمیں
کوئی مرتا ہو تو آ جاتے ہیں بیگانے تک
آج کل بیخودیِ شوق کا عالم ہے عجیب
کہیں مَیں آپ نہ کھو جاؤں تجھے پانے تک
موت برحق ہے ، مگر آخری خواہش یہ ہے
سانس چلتی رہے میری ، تیرے آ جانے تک
بات کرنی ہے نکیرین سے تنہا سب کو
ساتھ رہتے ہیں یہ احباب تو دفنانے تک
مَسندِ پیرِ مغاں دُور بہت ہے مجھ سے
ہاتھ اُٹھ کر بھی پہنچتے نہیں پیمانے تک
قدم اُٹھتے نہیں ، اب ضعف کا عالم ہے نصیرؔ
کوئی لے جاۓ مجھے تھام کے میخانے تک
پیر نصیر الدین نصیر
کبھی تم نے بھی یہ سوچا کہ ہم فریاد کیا کرتے
تمہارا دل دکھا کر اپنے دل کو شاد کیا کرتے
مری بربادیوں پر ہنسنے والو یہ تو سمجھا دو
جو مل جاتا تمہیں کو یہ دل برباد کیا کرتے
نگاہِ یاس میں جب نالۂ خاموش پنہاں ہے
تو پھر ہونٹوں کو ہم شرمندۂ فریاد کیا کرتے
دمِ آخر بھی اے دل خود فریبی ہچکیاں کیسی
جو دانستہ بھلا بیٹھے وہ تجھ کو یاد کیا کرتے
مجھے دیکھا تو ہر اک نے انہیں جلاد ٹھہرایا
انہیں دیکھا تو بولے یہ بھلا بیداد کیا کرتے
زمانہ جانتا ہے حضرت نخشبؔ کی خود داری
خلافِ عقل ہے وہ آرزوئے داد کیا کرتے
نخشبؔ جارچوی