میں اس کے پاس کبھی دیر سے گیا ہی نہیں
اسے پتہ ہی نہیں کیا ہے انتظار کا دکھ
تہذیب حسن
ﺧﺪﺍ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں، ﻧﺎﺧﺪﺍ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﭘﮑﺎﺭﻧﺎ ﮨﯽ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﻣﺮﯼ ﭘﺴﻨﺪ ﻣﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺣﺮﻑ ﺁﺋﮯ
ﺑﮩﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﮩﺖ ﺑﺎ ﻭﻓﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﮨﺰﺍﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﯿﮟ، ﻭﺟﮧِ ﻣﻼﻝ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﺳﺒﺐ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ تمہی ﮨﻮ، ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻧﺰﺍﮐﺘﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﻧﮕﺎﮦِ ﮐﺮﻡ ﭘﺮ ﺧﻔﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻮﭺ ﺭﮐﮭﻮ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﻠﻮ ﻧﮧ ﻣﻠﻮ ﻣُﺪﻋﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﺍﻟﺠﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﺠﮭﮯ ﮔﺮﻭﮦِ ﺗﺸﺒﯿﮩﺎﺕ
ﺑﺲ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﺩﺍ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
ﻗﺴﻢ ﺷﺮﺍﻓﺖِ ﻓﻦ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻏﺰﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ
ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﻧﮧ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺻﺒﺎ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ تمہیں
جمیل الدین عالیؔ
مستی مئے عِرفاں کی کم ہو نہی سکتی
بے کیف کبھی وادئ غم ہو نہی سکتی
لیلیٰ کا فُسُوں کہیے کہ وحشت کا تقاضا
ویرانوں کی رونق کبھی کم ہو نہی سکتی
کُچھ پایا ہے یا کھویا ہے سب تیری عطا ہے
ہم خوش ہیں کہ توصیفِ کرم ہو نہی سکتی
جِن راہوں سے ہم گُزرے ہیں چراغاں ہی کِیا ہے
پروانوں کی راہ، راہِ عدم ہو نہی سکتی
اعلانِ اناالحق سے کُھلا راز یہ واصفؔ
واصِل جو کرے موت سِتم ہو نہی سکتی۔۔۔!
حضرت واصف علی واصفؒؔ
بہ خوبی ھمچومہ تابندہ باشی
بہ ملک دلبری پاینده باشی
تیرے خوبصورت چہرہ چاند کی طرح چمکتا ہے ملک حسن پہ تیری بادشاہی سلامت رہےمن درویش را کشتی بہ غمزہ
کرم کردى الٰہی زندہ باشی
تیری قاتلانہ نگاہ نے مجھ غریب کو مار ڈالا کرم کیا تو نے خدا تجھے بسر زندگی دےجہاں سوزى اگر در غمزہ آىى
شکر ریزی اگر در خندہ باشی
تمہاری نکاہِ ناز سے نظامِ دنیا بدل جاتا ہے اور تمہاری مسکراہٹ سے مٹھاس بکھر جاتی ہےز قید دو جہاں آزاد گشتم
اگر تو ھم نشینِ بندہ باشى
میں دونوں جہانوں کی قید سے آزاد ہو جاؤں اگر کبھی تو میرے ہمسفر ہو جائےجفا کم کن کہ فردا روزِ محشر
زروی عاشقان شرمندہ باشی
جفا کم کرو کے کل قیامت کے دن کہیں عاشقوں کے آسامنے شرمندہ نہ ہونا پڑےبہ رندی و بہ شوخی ہمچو خسروؔ
ھزاران خان و مان برکندہ باشی
تمہاری شوخی اور زندہ دلی کے باعث خسرو جیسے ہزاروں دل تباہ ہو گئے
امیر خسروؔ
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلےآئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
کبوتر سے مرے نامہ کو لیکر اس طرح بگڑے
چُھری کو پھیر کر گردن پہ خون تلوؤں سے ملتے ہیں
بھلا یہ اور قدم رکھیں گے بڑھ کر کوئے قاتل میں
اجل کا نام سن کر دل رقیبوں کے دہلتے ہیں
مولوی محمد عبدالرشید فاروقی
رشیدؔ حیدر آبادی
ساقیا عید ہے، لا بادے سے مینا بھر کے
کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے
آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم
تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے
عقدِ پرویں ہے کہ اس حقۂ پرویں میں مَلَک
لاتے ہیں اُس رخِ روشن سے پسینا بھر کے
دل ہے، آئینہ صفا چاہیے رکھنا اِس کا
زنگ سے دیکھ نہ بھر اس میں تو کینا بھر کے
روز اس گلشنِ رُخسار سے لے جاتے ہیں گُل
اپنے دامانِ نظر، مردمِ بینا بھر کے
خُمِ پُر جوش کے مانند چھلکتا ہے مدام
خونِ حسرت سے لبوں تک مرا سینا بھر کے
جام خالی بھی لگا منہ سے نہ کم ظرف کے ساتھ
ذوقؔ کے ساتھ، قدح ذوقؔ سے پینا بھر کے
(شیخ ابراہیم ذوقؔ)
سنو محبت کے صاف منکر
بجا کہا کہ کہیں نہیں ہوں
تمہارے دل کے کسی بھی گوشے میں یاد بن کر
نہیں ہوں اب میں
غبارِ ہجراں کے سلسلوں نے
وصال رُت کی تمام یادیں
تمہارے دل سے دھکیل دی ہیں
مگر میری جاں
سمے ملے تو یہ غور کرنا
تمہاری آنکھوں کی سرحدوں میں
ابھرنے والی ہر ایک نس پر
یہ سرخ ڈورا جو بن رہا ہے
لہو نہیں ہے
وہ میں ہوں جاناں
کہ جس لہو کو طواف کر کے
تمہارے دل میں ہی لوٹنا ہے
کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گِلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
تری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دھری رہ جائے گی پابندیٔ زنداں، جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھادو کہ دیوانے بہت سے ہیں
بس اب سوجاؤ نیند آنکھوں میں ہے، کل پھر سنائیں گے
ذرا سی رہ گئی ہے رات، افسانے بہت سے ہیں
تمہیں کس نے بلایا، مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ مے خانے بہت سے ہیں
بڑی قربانیوں کے بعد رہنا باغ میں ہوگا
ابھی تو آشیاں بجلی سے جلوانے بہت سے ہیں
لکھی ہے خاک اڑانی ہی گر اپنے مقدر میں
ترے کوچے پہ کیا موقوف، دیوانے بہت سے ہیں
نہ رو اے شمع! موجودہ پتنگوں کی مصیبت پر
ابھی محفل سے باہر تیرے پروانے بہت سے ہیں
مرے کہنے سے ہوگی ترکِ رسم و راہ غیروں سے
بجا ہے، آپ نے کہنے میرے مانے بہت سے ہیں
قمر! اللہ ساتھ ایمان کے منزل پہ پہنچادے
حرم کی راہ میں سنتے ہیں بت خانے بہت سے ہیں
(قمر جلالوی)
آؤ حسن یار کی باتیں کریں
زلف کی رخسار کی باتیں کریں
زلف عنبر بار کے قصے سنائیں
طرۂ طرار کی باتیں کریں
پھول برسائیں بساط عیش پر
روز وصل یار کی باتیں کریں
نقد جاں لے کر چلیں اس بزم میں
مصر کے بازار کی باتیں کریں
ان کے کوچے میں جو گزری ہے کہیں
سایۂ دیوار کی باتیں کریں
آخری ساعت شب رخصت کی ہے
آؤ اب تو پیار کی باتیں کریں
چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند
ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چھپا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چپکے سے کہا عید کا چاند
دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
لے کے حالات کے صحراؤں میں آ جاتا ہے
آج بھی خلد کی رنگین فضا عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وسعت افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے، مرنے والا
اُس کو بھی ہم تیرے کُوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اُس کا انداز سُخن سب سے جُدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مُکرنے والا
شام ہونے کو ہے اورآنکھ میں اِک خواب نہیں
کوئی اِس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بِکھر کے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اِسی اُمّید پہ ہر شام بُجھائے ہیں چراغ
ایک تارا ہے سرِ بام اُبھرنے والا
تیرے ہلکے سے تبسم کا اشارا بھی تو ہو
تا سرِ دار پہنچنے کا سہارا بھی تو ہو
شکوہ و طنز سے بھی کام نکل جاتے ہیں
غیرتِ عشق کو لیکن یہ گوارا بھی تو ہو
مے کشوں میں نہ سہی تشنہ لبوں میں ہی سہی
کوئی گوشہ تری محفل میں ہمارا بھی تو ہو
کس طرف موڑ دیں ٹوٹی ہوئی کشتی اپنی
ایسے طوفاں میں کہیں کوئی کنارا بھی تو ہو
ہے غمِ عشق میں اک لذتِ جاوید مگر
اس غمِ دہر سے اے دل کوئی چارا بھی تو ہو
مے کدے بھر پہ ترا حق ہے، مگر پیرِ مغاں!!
اک کسی چیز پہ رندوں کا اجارا بھی تو یو
اشکِ خونیں سے جو سینچے تھے بیاباں ہم نے
اُن میں اب لالہ و نسریں کا نظارا بھی تو ہو
جام ابل پڑتے ہیں، مے لٹتی ہے، خم ٹوٹتے ہیں
نگۂ ناز کا درپردہ اشارا بھی تو ہو
پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن
دل پہ قابو بھی تو ہو، ضبط کا یارا بھی تو ہو
آپ اس وادئ ویراں میں کہاں آ پہنچے
میں گنہ گار، مگر میں نے پکارا بھی تو ہو
(علی جواد زیدی)
جنوں کا کون سا عالم ہے یہ خدا جانے
تجھے بھی بھولتے جاتے ہیں تیرے دیوانے
چراغِ طور ہے روشن، نہ آتشِ نمرود
اب اپنی آگ میں خود جل رہے ہیں پروانے
نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا
بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے
مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے
زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے
اندھیری رات میں سونا ہی جس کی فطرت ہو
وہ صبحِ نو کے تقاضوں کو کس طرح جانے
وعدہ اُس مہ رُو نے آنے کا کِیا تھا چاند رات
وہ نہ آیا ہے یہ ظُلمت جلوہ تِرا چاند رات
خُوبیِ قِسمت سے تکرارِ تجلّی ہوگئی
ہوگیا اُس ماہ کا جلوہ دوبارا چاند رات
ہم جو شیداۓ گُلِ رخسار ہیں اُس ماہ کے
کر رہے ہیں جلوہِ گُل کا نظارا چاند رات
جاں بلب ہوکر یہ کاٹے ہم نے ایامِ فِراق
شُکر ہے دِل ساز ہے وہ ماہ پارا چاند رات
رشکِ مہتاب آگیا ساقیؔ تجلّی ہوگئی
دیکھ لے یہ بھی مِری آنکھوں کا تارا چاند رات۔۔۔!
پنڈت جواہر ناتھ کول غمخوار ساقیؔ
ڈسو عید تے تُحفہ کیا گِھنسو؟
چھلا مُندری یا میں ھار ڈیواں؟
یا جگر چوں کڈھ کے رَت ڈیواں؟
یا جَھنگ دی وَنگ سرکار ڈیواں؟
دل پہلے ای تیڈے کول ھے سئیں!!
ڈَسو ھور میں کتنا پیار ڈیواں؟
ھِک جِندڑی باقی کول ھے پئی!!
کرو حُکم تاں اوہ وی وار ڈیواں؟؟
ہر اک جابر سے انکاری رہے گی
محبت حمد ہے جاری رہے گی !
یونہی نادِ علی پڑھتا رہوں گا
میری للکار دو دھاری رہے گی !
ہم ایسے کہنے والے جب تلک ہیں
غزل بندوق پر بھاری رہے گی !
علی اک شعر ایسا سن لیا ہے
کئی دن تک تو سرشاری رہے گی !
اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے
تجھے نہیں ہے ابھی فرصتِ کرم نہ سہی
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے
انور مسعود
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں
کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں
وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
پُرسشِ غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی، درد ہے زندگی نہیں
دور تھا اک گزر گیا ، نشہ تھا اک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہٴ بیرخی نہیں
تیرے سوا کروں پسند، کیا تری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمتِ بندگی نہیں
لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نہ وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقیں کہ تُو، حاصلِ زندگی نہیں
دل کی شگفتگی کے ساتھ، راحتِ مےکدہ گئی
فرصتِ مہ کشی تو ہے ، حسرتِ مہ کشی نہیں
زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں
دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تری خزاں کے بعد ، دورِ بہار ہی نہیں
ملے گا کیا تجھے اے دل یہ تجربہ کر کے
ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے
ہمیں بھی صبح جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
سخن میں تیرے تغافل سے آ گیا یہ ہنر
ذرا سا غم بھی سناتے ہیں سانحہ کر کے
ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے
اُداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے
عرفانؔ ستار
تم مجھے چھوڑ گئے تھے وہ تمھیں چھوڑ گیا
اسے کہتے ہیں مری جان مکافات کا دکھ
میری اطراف میں پھیلے ہوئے یہ جھوٹے لوگ
میری اطراف میں پھیلا ہوا سقراط کا دکھ
مسعود ساگر
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
جاوید اختر
بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
جو فصل خواب کی تیار ہے تو یہ جانو
کہ وقت آ گیا پھر درد کوئی بونے کا
یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے
خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا
ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے
وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا
موتی نہیں ہوں ریت کا ذرہ تو میں بھی ہوں
دریا ترے وجود کا حصّہ تو میں بھی ہوں
اے قہقہے بکھیرنے والے، تو خوش بھی ہے؟
ہنسنے کی بات چھوڑ کہ ہنستا تو میں بھی ہوں
مجھ میں اور اُس میں صرف مقدّر کا فرق ہے
ورنہ وہ شخص جتنا ہے اتنا تو میں بھی ہوں
اُس کی تو سوچ، دنیا میں جس کا کوئی نہیں
تو کس لئے اُداس ہے تیرا تو میں بھی ہوں
اک ایک کر کے ڈوبتے تارے بھی بجھا کئے
مجھ کو بھی ڈوبنا ہے ستارہ تو میں بھی ہوں
اک آئینے میں دیکھ کے آیا ہے یہ خیال
میں کیوں نہ اُس سے کہہ دوں کہ تجھ سا تو میں بھی ہوں
Original:
به مژگان سیه کردی هزاران رخنه در دینم
بیا کز چشم بیمارت هزاران درد برچینم
الا ای همنشین دل که یارانت برفت از یاد
مرا روزی مباد آن دم که بی یاد تو بنشینم
جهان پیر است و بیبنیاد از این فرهادکش فریاد
که کرد افسون و نیرنگش ملول از جان شیرینم
ز تاب آتش دوری شدم غرق عرق چون گل
بیار ای باد شبگیری نسیمی زان عرق چینم
جهان فانی و باقی فدای شاهد و ساقی
که سلطانی عالم را طفیل عشق میبینم
اگر بر جای من غیری گزیند دوست حاکم اوست
حرامم باد اگر من جان به جای دوست بگزینم
صباح الخیر زد بلبل کجایی ساقیا برخیز
که غوغا میکند در سر خیال خواب دوشینم
شب رحلت هم از بستر روم در قصر حورالعین
اگر در وقت جان دادن تو باشی شمع بالینم
حدیث آرزومندی که در این نامه ثبت افتاد
همانا بیغلط باشد که حافظ داد تلقینم
Original:
من ترک عشق شاهد و ساغر نمیکنم
صد بار توبه کردم و دیگر نمیکنم
باغ بهشت و سایه طوبی و قصر و حور
با خاک کوی دوست برابر نمیکنم
تلقین و درس اهل نظر یک اشارت است
گفتم کنایتی و مکرر نمیکنم
هرگز نمیشود ز سر خود خبر مرا
تا در میان میکده سر بر نمیکنم
ناصح به طعن گفت که رو ترک عشق کن
محتاج جنگ نیست برادر نمیکنم
این تقویم تمام که با شاهدان شهر
ناز و کرشمه بر سر منبر نمیکنم
حافظ جناب پیر مغان جای دولت است
من ترک خاک بوسی این در نمیکنم
Translation:
تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشیوں کا انتظام کریں
رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ
متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو میں راضی کر لوں
اور پھر کس کو پسند آئے گا ویرانۂ دل
غم سے مانا بھی کہ اس گھر کو میں خالی کر لوں
جورِ گردوں سے جو مرنے کی بھی فرصت مل جائے
امتحانِ دمِ جاں پرورِ عیسی کر لوں
دل ہی ملتا نہیں سفلوں سے وگرنہ شبلی
خوب گذرے فلکِ دوں سے جو یاری کر لوں۔۔۔!!