مستی مئے عِرفاں کی کم ہو نہی سکتی
بے کیف کبھی وادئ غم ہو نہی سکتی
لیلیٰ کا فُسُوں کہیے کہ وحشت کا تقاضا
ویرانوں کی رونق کبھی کم ہو نہی سکتی
کُچھ پایا ہے یا کھویا ہے سب تیری عطا ہے
ہم خوش ہیں کہ توصیفِ کرم ہو نہی سکتی
جِن راہوں سے ہم گُزرے ہیں چراغاں ہی کِیا ہے
پروانوں کی راہ، راہِ عدم ہو نہی سکتی
اعلانِ اناالحق سے کُھلا راز یہ واصفؔ
واصِل جو کرے موت سِتم ہو نہی سکتی۔۔۔!
حضرت واصف علی واصفؒؔ
No comments:
Post a Comment