ملے گا کیا تجھے اے دل یہ تجربہ کر کے
ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے
ہمیں بھی صبح جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
سخن میں تیرے تغافل سے آ گیا یہ ہنر
ذرا سا غم بھی سناتے ہیں سانحہ کر کے
ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے
اُداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے
عرفانؔ ستار
No comments:
Post a Comment