تیرے ہلکے سے تبسم کا اشارا بھی تو ہو
تا سرِ دار پہنچنے کا سہارا بھی تو ہو
شکوہ و طنز سے بھی کام نکل جاتے ہیں
غیرتِ عشق کو لیکن یہ گوارا بھی تو ہو
مے کشوں میں نہ سہی تشنہ لبوں میں ہی سہی
کوئی گوشہ تری محفل میں ہمارا بھی تو ہو
کس طرف موڑ دیں ٹوٹی ہوئی کشتی اپنی
ایسے طوفاں میں کہیں کوئی کنارا بھی تو ہو
ہے غمِ عشق میں اک لذتِ جاوید مگر
اس غمِ دہر سے اے دل کوئی چارا بھی تو ہو
مے کدے بھر پہ ترا حق ہے، مگر پیرِ مغاں!!
اک کسی چیز پہ رندوں کا اجارا بھی تو یو
اشکِ خونیں سے جو سینچے تھے بیاباں ہم نے
اُن میں اب لالہ و نسریں کا نظارا بھی تو ہو
جام ابل پڑتے ہیں، مے لٹتی ہے، خم ٹوٹتے ہیں
نگۂ ناز کا درپردہ اشارا بھی تو ہو
پی تو لوں آنکھوں میں امڈے ہوئے آنسو لیکن
دل پہ قابو بھی تو ہو، ضبط کا یارا بھی تو ہو
آپ اس وادئ ویراں میں کہاں آ پہنچے
میں گنہ گار، مگر میں نے پکارا بھی تو ہو
(علی جواد زیدی)
No comments:
Post a Comment