ﺗﯿﺮﮮ ﺻﺪﻗﮯ ﻭﮦ ﺍُﺳﯽ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﺧُﻮﺩ ﮨﯽ ﮈُﻭﺑﺎ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﺲ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺎ ﻣُﺠﮭﮯ ﺭُﺳﻮﺍ ﮐﺮﻧﺎ
_____________
AddThis
Saturday, 30 September 2017
بلا عنوان
عبد الحمید عدم
تجھ سے کیا چیز قیمتی ھو گی؟؟
تُو تو پیارے !! میرا حبیب ھُوا
دو ھی با ذوق آدمی ھیں ، عدم
میں ھُوا , یا میرا رقیب ھُوا
”عبدالحمّید عدم“
محبوب عظیمی
یہ مکافاتِ عمل ھے ، ابھی کچھ عرصے میں
تجھے بھی ھو گی محبت ، کسی بد ذات کے ساتھ
”محبوب عظیمی“
Friday, 29 September 2017
شہزاد نیر
" شکست کس کی "
عجیب منظر ہے !
دشت ِ کرب و بلا میں
خیموں کی ایک بستی نے
کاخ ِ شاھی گرا دیا ہے
زمانہ دیکھے
کہ بے ردائی نے سچ کے نیزے سے
جھوٹ کا پردہ نوچ ڈالا ہے
پیاس کے بے کراں سمندر سے
صبر کی ایک موج آکر
فرات سارا نگل گئی ہے
یہ کیسا منظر ھے !
مشک بردار بازوؤں سے
کسی نے تلوار کاٹ دی ھے
گلوئے اصغر نے نوک ِناوک کو مات دی ھے
عجیب منظر ھے !
ایک شہہ رگ نے
دھار خنجر کی کند کر دی ھے
ایک سر وہ جو اپنے تن سے جدا ھوا ھے
مرا نہیں ھے
مقابلے میں وہ کتنے سر تھے
جو زندہ بچنے پہ ناز کرتے تھے
اب شہیدوں کی زندگی سے
شکست کھا کر مرے پڑے ھیں
شہزاد نیر
Wednesday, 27 September 2017
قمر نقوی
پھر سے ترے نقوش نظر پہ عیاں ہوئے
لو پھر وصال یار کے لمحے جواں ہوئے
اک بات بڑھ کے باعث ناراضگی ہوئی
کچھ لفظ منہ سے نکلے تو آہ و فغاں ہوئے
تیرے سبھی دروغ وجاہت میں چھپ گئے
اور میری صاف بات پہ کتنے گماں ہوئے
کیوں کر کریں گے یاد وہ درد فراق میں
ہم اس قدر قریب بھی ان کے کہاں ہوئے
مہلت ہی کب ملی کہ سنبھل پاتے ہم قمرؔ
ہم پر تو جتنے ظلم ہوئے ناگہاں ہوئے
قمر نقوی۔۔۔!!!
Tuesday, 26 September 2017
میر تقی میر
یوں پکاریں ہیں مجھے کوچہ جاناں والے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر آ بے! ابے ہو چاک گریباں والے
( میر تقی میر )
Sunday, 24 September 2017
احمد ندیم قاسمی
تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے !
تُو نے ہونٹوں کو لرزے سے تو روکا ہوتا
بے نیازی سے ، مگر کانپتی آواز کے ساتھ
تُو نے گھبرا کے مِرا نام نہ پوچھا ہوتا
تیرے بَس میں تھی اگر مشعل ِ جذبات کی لَو
تیرے رُخسار میں گلزار نہ بھڑکا ہوتا
یوں تو مجھ سے ہوئیں صرف آب و ہوا کی باتیں
اپنے ٹوٹے ہوئے فقروں کو تو پَرکھا ہوتا
یُونہی بے وجہ ٹھٹکنے کی ضرورت کیا تھی
دَم ِ رخصت میں اگر یاد نہ آیا ہوتا
تیرا غماز بنا خود ترا انداز ِ خرام
دل نہ سنبھلا تھا تو قدموں کو سنبھالا ہوتا
اپنے بدلے مِری نظر آجاتی
تُو نے اُس وقت اگر آئینہ دیکھا ہوتا
حوصلہ تجھ کو نہ تھا مجھ سے جُدا ہونے کا
ورنہ کاجل تری آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا
Friday, 22 September 2017
انور مسعود
کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لئے
توملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
تیرے رستے کا، جو کانٹا بھی میسر آئے
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کہ
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انور
روگ اُس کا نہ میں دل سے لگاؤں اپنے
انور مسعود
اقبال عظیم
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سر بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمن جاں ملا وہی پختہ کار جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستان حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریک بزم خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مجھے اک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط ملا
کہیں خون دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا کہیں راستوں میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سر راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا
Thursday, 21 September 2017
اظہرعنایتی
ابھی بچھڑا ہے وہ کچھ روز تو یاد آئے گا
نقش روشن ہے مگر نقش ہے، دھندلائے گا
گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ
میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا
اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہوگا طلوع
اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا
میری قسمت تو یہی ہے کہ بھٹکنا ہے مجھے
راستے!! تو مرے ہمراہ کدھر جائے گا
اپنے ذہنوں میں رچا لیجیے اس دور کا رنگ
کوئی تصویر بنے گی تو یہ کام آئے گا
ا تنے دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اس سے اظہر
مل بھی جائے گا تو پہچان نہیں پائے گا
اظہرعنایتی
Tuesday, 19 September 2017
محسن نقوی
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خدوخال اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زباں خوشبو کی
لوگ سُنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے ، وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے ، کوئی خواب تھا وہ
دِل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُس کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دِل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُس کے ، میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خب ر ، اِن دنوں وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا۔ ۔ ۔*!!!
محسن نقوی
خمارؔ بارہ بنکوی
ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہ گار زہر کھا بیٹھے
حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے
آندھیو جاؤ اب کرو آرام
ہم خود اپنا دیا بجھا بیٹھے
جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطف غم گنوا بیٹھے
بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دور خمارؔ
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے
Monday, 18 September 2017
ﻧوحﻧﺎﺭﻭﯼ
ﺭﻭﺯ ﮐﺎ ﻏﻢ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﮮ ﺩﻝِ ﺷﯿﺪﺍ ﺟﺎئے
ﻭﮦ ﻧﮧ ﺁﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ﻣﻮﺕ ﻣِﺮﯼ ﺁ ﺟﺎئے
ﻟﻄﻒ ﺗﻮ ﺟﺐ ﮨﮯ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺘﺎ ﺟﺎئے
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﯿﺮ ﻣِﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺗﻨﮩﺎ ﺟﺎئے
ﺷﮑﻮۂ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﻋﺸﺎﻕ ﮐﺮﯾﮟ
ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﻧﮧ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﺟﺎئے
ﺁﭖ ﺑﮭﺮ ﭘﺎئے ﮔﺎ ﮐﺲ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﺭﻭﮐﮯ ﮐﻮئی
ﮐﻮچہِ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ جائے، ﺩﻝِ ﺷﯿﺪﺍ ﺟﺎئے
ﺗﻢ ﺟﻮ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﻏﻨﭽﮧ ﻭ ﮔﻞ
ﺗﻢ ﺟﻮ ﮨﻨﺲ ﺩﻭ ﺗﻮ ﺧﺰﺍﮞ ﺟﺎئے، ﺑﮩﺎﺭ ﺁ ﺟﺎئے
ﮐﭽﮫ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﮧ ﺍﻟﻔﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﻟﻄﻒ ﺁ ﺟﺎئے، ﺗِﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺁ ﺟﺎئے
ﮐﯿﺎ ﺍﺳﯽ ﭘﺮﺩۂ ﻏﻔﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﮑﻤﯿﻞِ ﺣﯿﺎﺕ
ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺘﺎ ﺭﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺟﺎئے
ﻧﻮﺡؔ ﻃﻮﻓﺎﻥِ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﮩﺘﮯ ﺑﮩﺘﮯ ﮐﻮئی ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗِﺮﮮ ﺁ ﺟﺎئے
ﻧوحﻧﺎﺭﻭی
Sunday, 17 September 2017
احمد فراز
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﺍﺩِ ﺟﻔﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺑﺴﻤﻞ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﻮ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻭﺣﺸﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺭﻭﺯﻥِ ﺯﻧﺪﺍﮞ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﮩﺮ ﻭ ﻣﮧ ﻭ ﺍﻧﺠﻢ ﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺍﮎ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯِ ﻋﻼﺝِ ﻏﻢِ ﺟﺎﮞ ﮨﮯ
ﺍﮮ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮﻭ، ﺩﺭﺩ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﻣﻨﺼﻒ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺗﻮ ﮐﺐ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ
ﻣﺠﺮﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺗﻮ ﺳﺰﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﺭﮨﺰﻥ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ ﻣﺘﺎﻉِ ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺭﮨﺒﺮ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﯽ ﺍﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺯؔ ﺍﮨﻞِ ﭼﻤﻦ ﭘﺮ
ﯾﺎﺭﺍﻥِ ﻗﻔﺲ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺻﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ
احمد فراز
Saturday, 16 September 2017
پروین شاکر
اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے
اگر چاہیں تو وہ دیوار کردیں
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے
ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے
بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں
پتا منزل کا میر کارواں سے
توجہ برق کی حاصل رہی ہے
سو ہے آزاد فکر آشیاں سے
ہوا کو راز داں ہم نے بنایا
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے
ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے
فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے
مگر فرصت نہ تھی کارِ جہاں سے
وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے
کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید
زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے
میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے
جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے
جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے
Friday, 15 September 2017
Thursday, 14 September 2017
عبد الحمید عدم
ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے
آپ کی خوشی حضور بولئے نہ بولئے
کیا حسین خار تھے جو مری نگاہ نے
سادگی سے بارہا روح میں چبھو لیے
موسم بہار ہے عنبریں خمار ہے
کس کا انتظار ہے گیسوؤں کو کھولیے
زندگی کا راستہ کاٹنا تو تھا عدمؔ
جاگ اٹھ تو چل دیئے تھک گئے تو سو لیے
Wednesday, 13 September 2017
حوصلہ
روند پائے نہ دلائل میرے
میرے دشمن بھی تھے قائل میرے
صاف دکھتی تھی جلن آنکھوں میں
پھر بھی ہونٹوں پہ فضائل میرے
یہ تہی فکر، کنوئیں کے مینڈک
یہ نہ سمجھیں گے مسائل میرے
چھاؤں دیتے تھے ... مگر راہ نہیں
پیڑ تھے رستے میں حائل میرے
آنکھ... اب خواب نہیں دے سکتی
روشنی مانگ لے سائل میرے!
جب تلک ہاتھ ترے ہاتھ میں ہے
حوصلے ہوں گے نہ زائل میرے
Tuesday, 12 September 2017
جگر مرادآبادی
اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس
درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
عشق جب تک نہ کر چُکے رسوا
آدمی کام کا نہیں ہوتا
ٹوٹ پڑتا ہے دفعتاً جو عشق
بیشتر دیر پا نہیں ہوتا
وہ بھی ہوتا ہے ایک وقت کہ جب
ماسوا ماسوا نہیں ہوتا
ہائے کیا ہو گیا طبیعت کو
غم بھی راحت فزا نہیں ہوتا
دل ہمارا ہے یا تمھارا ہے
ہم سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
جس پہ تیری نظر نہیں ہوتی
اُس کی جانب خدا نہیں ہوتا
میں کے بے زار عمر بھر کے لئے
دل کہ دم بھر جدا نہیں ہوتا
وہ ہمارے قریب ہوتے ہیں
جب ہمارا پتہ نہیں ہوتا
دل کو کیا کیا سکون ہوتا ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا
ہو کے اِک بار سامنا اُن سے
پھر کبھی سامنا نہیں ہوتا
Monday, 11 September 2017
فیض احمد فیض
تجھ کو دیکھا ، تو سیر چشم ھُوئے
تجھ کو چاھا ، تو اور چاہ نہ کی
تیرے دست ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نےآہ نہ کی
”فیض احمد فیضؔ“
منیر نیازی
غم گساری کی طلب تھی یہ محبت تونہ تھی
دردجب دل میں اٹھاتھا تو چھپاتے اس کو
فائدہ کیاہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیر
عمر توبیت گئی راہ پہ لاتے اسُ کو
Sunday, 10 September 2017
نصیرالدین نصیر
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ، وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور ہو، سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی، وہ کہیں سہی
نہ ہو اُن پہ جو مرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں اُن ہی کا تھا، میں اُن ہی کا ہوں، وہ مرے نہیں، تو نہیں سہی
جوہو وہ فیصلہ وہ سُنائیے، اسے حشر پر نہ اُٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
منافقت
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
اناپرست تھے دونوں مفاہمت نہ ہوئی
وہ شخص اچھا لگا ہم کو ، صاف کہہ ڈالا
یہ دل کی بات تھی ہم سے منافقت نہ ہوئی
علاج بالمثل
نشتر زخم لگاتا ہے تو نشتر سے کھلواتا ہوں
سلواتا ہوں
پھنیر نیل اتارتا ہے تو منکے میں رسواتا ہوں
کھنچواتا ہوں
پانی گرمی گھولتا ہے
تو پانی کا ٹھنڈا پیالہ منگواتا ہوں
جب شب زندہ داری میں مے چڑھتی ہے
تو صبح صبوحی کی سیڑھی لگواتا ہوں
عورت چرکا دیتی ہے تو عورت کو بلواتا ہوں
دکھلاتا ہوں
اک عادت کے گھاؤ پہ دوسری عادت باندھا کرتا ہوں
میں عورت کے زخم کے اوپر عورت باندھا کرتا ہوں
وحید احمد
Saturday, 9 September 2017
جو بھی ہو گا، فیصلہ ہو گا
ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوںگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلفِ حضرت ہیں
جدھر نظریںاُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوب خدا ہو گا، وہ محبوبِ خدا ہو گا
اسی امید پر ہم طالبانِ درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، دردِ لادوا ہو گا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہرِ عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہو گا
جگرؔ کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو گا، شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
جگرؔ مراد آبادی
الزام
ہم پر تمہاری چاہ کا الزام ہی تو ہے
الزام تو نہیں ہے یہ اکرام ہی تو ہے
کرتے ہیں جس پہ طعن کوئی جرم تو نہیں
شوق فضول و الفت ناکام ہی تو ہے
دل مدعی کے حرف ملامت سے شاد ہے
اے جانِ جاں! یہ حرف تیرا نام ہی تو ہے
Friday, 8 September 2017
Thursday, 7 September 2017
Wednesday, 6 September 2017
کوئی دابی پور کماد کی
کوئی دابی پور کماد کی ۔
اک منزل پچھلے چاند کی
نت روشن جس کی لو
وہ وقت کو پیچھے چھوڑ گئی
اسے دھنّے واد کہو
دابی ہوئی پور کماد کی
جو پھوٹی مگھر پوہ
کتنوں کو یہی اک چاہ تھی
وہ صرف مخاطب ہو
اے روپ جمال وصال کے
ترا کون سا ہے شبھ ناؤں
وہ جن میں تیرے لوگ تھے
کن گھاٹوں اترے گاؤں
کن صدیوں پر تری چھاؤنی
کن نسلوں پر تری چھاؤں
کہہ کتنی نرم دہائیاں
ترا دیکھتے گذریں روپ
کن پلکوں میں تری چھاؤں تھی
کن چہروں پر تری دھوپ
تری نظر نیازیں بانٹتی
بھکشا میں روپ سروپ
تو کس سرما کی چاندنی
گرما کی شکر دوپہر
تو صبح میں سویا بالکا
تو گاؤں میں پچھلا پہر
ست رنگا خواب فقیر کا
یا بھید بھری دوپہر
اک پوری نیند کی شانتی
تری کجلے والی لہر
اے سنبھلے جسم کی نازنیں
کئی عمریں تجھ پر تنگ
تو شبد قدیم کتاب سے
اظہار سے جس کی جنگ
تو ذات حیات کے ساتھ کی
کیوں نکلی غیر کے سنگ؟
تو سینوں بیچ پدھارتی
کیوں تو نے اوڑھے رنگ
میں شاعر پچھلے جنم کا
تو میری پرانی منگ
اب جیون اوڑھ کے آئی تو
سہہ تنہائی کے ڈھنگ
عبد الحمید عدم
اس کو کہتے ہیں اچانک ہوش میں آنے کا نام
رکھ دیا دانش کدہ، رندوں نے میخانے کا نام
حُور ہے، رعنائیِ نسواں کا اک نقلی لباس
خلد ہے، زاہد کے دانستہ بہک جانے کا نام
آپ پر بھی وار ہو دل کا، تو پوچھیں آپ سے
عشق بیماری کا غلبہ ہے کہ افسانے کا نام
بے رُخی کیا ہے؟ لگاوٹ تیز کرنے کا عمل
دلبری کیا ہے؟ مکمل طوق پہنانے کا نام
زندگی ہے، دوسروں کے حکم پر مرنے کا جشن
موت ہے، اپنی رضامندی سے مر جانے کا نام
آگہی کیا ہے؟ مسلسل خود فریبی کا چلن
روشنی کیا ہے؟ فریبِ مستقل کھانے کا نام
ہیں عدم کے ذکر پر، کیوں آپ اتنے پُر غضب
شمع کے ہمراہ، آ جاتا ہے پروانے کا نام
Tuesday, 5 September 2017
پسند ہے ؟
بات کرے تو کھل اٹھوں، لمس ملے تو جل اٹھوں
روح الگ پسند ہے، جسم جدا پسند ہے
بِھیڑ بہت ہے دوستا ! ایک ہی جاں ہے میرے پاس
وقف کروں ترے لئے؟ جلدی بتا ؟ پسند ہے ؟؟
علی زریون
Sunday, 3 September 2017
Eid (Third Day)
Barren Woman
Empty, I echo to the least footfall,
Museum without statues, grand with pillars, porticoes, rotundas.
In my courtyard a fountain leaps and sinks back into itself,
Nun-hearted and blind to the world. Marble lilies
Exhale their pallor like scent.
I imagine myself with a great public,
Mother of a white Nike and several bald-eyed Apollos.
Instead, the dead injure me with attentions, and nothing can happen.
The moon lays a hand on my forehead,
Blank-faced and mum as a nurse.
Sylvia Plath