ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوںگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سرِ محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلفِ حضرت ہیں
جدھر نظریںاُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں سکتی
جو محبوب خدا ہو گا، وہ محبوبِ خدا ہو گا
اسی امید پر ہم طالبانِ درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، دردِ لادوا ہو گا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہرِ عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہو گا
جگرؔ کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو گا، شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
جگرؔ مراد آبادی
No comments:
Post a Comment