ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے
آپ کی خوشی حضور بولئے نہ بولئے
کیا حسین خار تھے جو مری نگاہ نے
سادگی سے بارہا روح میں چبھو لیے
موسم بہار ہے عنبریں خمار ہے
کس کا انتظار ہے گیسوؤں کو کھولیے
زندگی کا راستہ کاٹنا تو تھا عدمؔ
جاگ اٹھ تو چل دیئے تھک گئے تو سو لیے
No comments:
Post a Comment