بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص
تُم نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص
کوئی کیسا ہمسفر ہے، یہ ابھی سے مت بتاؤ
ابھی کیا پتا کسی کا کہ چلی نہیں ہے ناؤ
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ سدا رہیں مراسم
یہ سفر کی دوستی ہے اسے روگ مت بناؤ
مرے چارہ گر بہت ہیں، یہ خلش مگر ہے دل میں
کوئی ایسا ہو کہ جس کو،ہوں عزیز میرے گھاؤ
تمہیں آئینہ گری میں، ہے بہت کمال حاصل
مرا دل ہے کرچی کرچی، اسے جوڑ کر دکھاؤ
کوئی قیس تھا تو ہوگا، کوئی کوہکن تھا، ہوگا
مرے رنج مختلف ہیں، مجھے ان سے مت ملاؤ
مجھے کیا پڑی ہے ساجد کہ پرائی آگ مانگوں
میں غزل کا آدمی ہوں، مرے اپنے ہیں الاؤ
اعتبار ساجد
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
مکمل غزل
ساغر میں شکلِ دخترِ رز کچھ بدل گئی
خُم سے نکل کے نور کے سانچے میں ڈھل گئی
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
کہتی ہے نیم وا یہ چمن کی کلی کلی
فریادِ عندلیب کلیجہ مسل گئی
ساقی ادھر اٹھا تھا ادھر ہاتھ اٹھ گئے
بوتل سے کاگ اڑا تھا کہ رندوں میں چل گئی
انگڑائی لے کے اور بھی وہ سوئے چین سے
پھولوں کی پنکھیاں جو نسیم آ کے جھل گئی
دامن میں دختِ رز نے لگایا ضرور داغ
جس پارسا کی گود میں جا کر مچل گئی
گھبرا کے بولے نامۂ گستاخؔ تو نہیں
جب ان کے پاس کوئی ہماری غزل گئی
(حافظ محمد کرامت اللہ خاں گستاخؔ رامپوری)
نہ میں یقین میں رکّھوں نہ تُو گمان میں رکھ
ہے سب کی بات تو پھر سب کے درمیان میں رکھ
وہ دھوپ میں جو رہے گا تو روپ کھو دے گا
چھپا لے سینے میں پلکوں کے سائبان میں رکھ
مرے بدن کو تو. اپنے بدن کی آنچ نہ دے
جو ہو سکے تو مری جان اپنی جان میں رکھ
نہ بیٹھنے دے کبھی عزم کے پرندے کو
اُڑان بھول نہ جائے ، سدا اُڑان میں رکھ
محبتیں نہیں ملتیں محبتوں کے بغیر
اُسے نہ بھول تو فردوس اپنے دھیان میں رکھ
(فردوس گیاوی)
شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی
ہم نے سب دکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اس قدر نہیں ہوتی
نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی
چاند ہے، کہکشاں ہے تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی
ایک جاں سوز و نامراد خلش
اس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی
دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی
رات آکر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی
بے قراری سہی نہیں جاتی
زندگی مختصر نہیں ہوتی
ایک دن دیکھنے کو آجاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی
حُسن سب کو خدا نہیں دیتا
ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی
دل پیالہ نہیں گدائی کا
عاشقی در بہ در نہیں ہوتی
اُس کی آنکھوں کا وہی رنگ ہے جھیلوں جیسا
خاص جرگوں میں___ قبائل کی دلیلوں جیسا
تیری صورت سے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اکھیاں ہور کسے نوں کیوں ویکھن
جدو کھوٹ ایمان اچ کوئی نہی....!
تیرے دل دیاں یار خدا جانے
ساڈا ہور جہاں وچ کوئی نہیں
آپ کی آنکھیں اگر شعر سنانے لگ جائیں
ہم جو غزلیں لیے پھرتے ہیں ٹھکانے لگ جائیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں..
سنا ہے ہرن اسے دشت بھر کے دیکھتے ہیں...
اس کی آنکھیں بتاوں،کیسی ہیں؟
جھیل سیف الملوک جیسی ہیں
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار یہ کیا
پاؤں پر اُنکے گِرا میں تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا
کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں
اسقدر ہے تمہیں دشوار یہ کیا
سر اُڑاتے ہیں وہ تلواروں سے
کوئی کہتا نہیں سرکار یہ کیا
ہاتھ آتی ہے متاعِ الفت
ہاتھ ملتے ہیں خریدار یہ کیا
خوبیاں کل تو بیاں ہوتی تھیں
آج ہے شکوۂ اغیار یہ کیا
لے لیے ہم نے لپٹ کر بوسے
وہ تو کہتے رہے ہر بار یہ کیا
وحشتِ دل کے سوا اُلفت میں
اور ہیں سینکڑوں آزار یہ کیا
ضعف رخصت نہیں دیتا افسوس
سامنے ہے درِ دلدار یہ کیا
باتیں سنیے تو پھڑک جائیے گا
گرم ہیں داغ کے اشعار یہ کیا
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشہ نہ بنا دے
اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنا دے
میں ڈھونڈ رہا ہوں میری وہ شمع کہاں ہے
جو بزم کی ہر چیز کو پروانہ بنا دے
آخر کوئی صورت بھی تو ہو خانۂ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدہء مستی
ہر ذرے کو سنگِ درِ جاناناں بنا دے
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
جب کہا اور بھی دنیا میں حسیں اچھے ہیں
کیا ہی جھنجلا کے وہ بولے کہ ہمیں اچھے ہیں
نہ اُٹھا خواب عدم سے ہمیں ہنگامہء حشر
کہ پڑے چین سے ہم زیرِ زمیں اچھے ہیں
کس بھروسے پہ کریں تجھ سے وفا کی اُمید
کون سے ڈھنگ ترے جان حزیں اچھے ہیں
خاک میں آہ ملا کر ہمیں، کیا پوچھتے ہو
خیر جس طور میں ہم خاک نشیں اچھے ہیں
ہم کو کوچے سے تمہارے نہ اُٹھائے اللہ
صدقے بس خلد کے کچھ ہم تو یہیں اچھے ہیں
نہ ملا خاک میں، تو ورنہ پشیماں ہوگا
ظلم سہنے کو ہم اے چرخ بریں اچھے ہیں
دل میں کیا خاک جگہ دوں ترے ارمانوں کو
کہ مکاں ہے یہ خراب اور مکیں اچھے ہیں
مجھ کو کہتے ہیں رقیبوں کی بُرائی سن کر
وہ نہیں تم سے بُرے بلکہ کہیں اچھے ہیں
بُت وہ کافر ہیں کہ اے داغ خدا اُن سے بچائے
کون کہتا ہے یہ غارتگر دیں اچھے ہیں
یوں ہی درست ہوگی طبیعت تری عدمؔ
کمبخت بھول جا کہ طبیعت اداس ہے
توبہ تو کر چکا ہوں مگر پھر بھی اے عدمؔ
تھوڑا سا زہر لا کہ طبیعت اداس ہے
.....
ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں
دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں
دنیا کتنی حسین لگتی ہے
آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں
......
یہ سمجھ کے سچ جانا ہم نے تیری باتوں کو
اتنے خوب صورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے
.....
عدم
عمر خیام (ترجمہ)
نوجوانی کے عہدِ رنگیں میں
جز مےِ ناب اور کیا پینا
ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی
تلخ ہے جام، تلخ ہے جینا
پارساؤں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہمیں سے پی اور ہمیں رسوا سرِ بازار کیا
رات پھولوں کی نمائش میں وہ خوش جسم سے لوگ
آپ تو خواب ہوئے اور ہمیں بیدار کیا
درد کی دھوپ میں صحرا کی طرح ساتھ رہے
شام آئی تو لپٹ کر ہمیں دیوار کیا
کچھ وہ آنکھوں کو لگے سنگ پہ سبزے کی طرح
کچھ سرابوں نے ہمیں تشنۂ دیدار کیا
سنگساری میں تو وہ ہاتھ بھی اٹھا تھا عطاّ
جس نے معصوم کہا جس نے گنہ گار کیا
عطاّء شاد
( حمایت علی شاعر)
تجھ کو معلوُم نہیں، تجھ کو بَھلا کیا معلوُم !
تیری زُلفیں، تری آنکھیں ، ترے عارض، ترے ھونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ھیں
اتنا مانوس ھے تیرا ھر اِک انداز کہ دِل
تیری ھر بات کا افسانہ بنا لیتا ھے
ترے ترشے ہوئے پیکر سے چُرا کر کچھ رنگ
اپنے خوابوں کا صنم خانہ سجا لیتا ھے
خلوتِ بزم ہو یا جلوتِ تنہائی ہو
ترا پیکر مِری نظروں میں اُتر آتا ہے
کوئی ساعت ہو، کوئی فکر ہو، کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تِرا حُسن نظر آتا ھے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹھٹھک جاتے ھیں
سوچتا ہوں کہ کہیں توُ نے پُکارا تو نہیں
گمُ سی ہو جاتی ہیں نظریں، تو خیال آتا ھے
اِس میں پنہاں تِری آنکھوں کا اِشارہ تو نہیں
جانے اِس حُسنِ تصوّر کی حقیقت کیا ھے
جانے ان خوابوں کی قسمت میں سحر ھے کہ نہیں
جانے تو کون ھے، میں نے تجھے سمجھا کیا ھے
جانے تجھ کو بھی مِرے دل کی خبر ھے کہ نہیں !
تجھ کو معلوُم نہیں، تجھ کو بَھلا کیا معلوُم !
تجھ کو معلوم نہیں ، تجھ کو بھلا کیا معلوم !!
اپنی آواز کی لرزش پہ تو قابو پا لو
پیار کے بول تو ہونٹوں سے نکل جاتے ہیں
اپنے تیور بھی سنبھالو کہ کوئی یہ نہ کہے
دل بدلتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
انور مسعود
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اب برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِسقدر بھی نہ چاہو کہ دَم نِکل جائے
ملے ہیں یوں تو بُہت ، آئو اب مِلے یوں بھی
کہ روح گرمئِ انفاس سے پگھل جائے
محبتوں میں عجب ہے دِلوں کو دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
رہے وہ دِل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے
میں وہ چراغِ سرِ راہگزارِ دُنیا ہوں
جو اپنی زات کی تنہائیوں میں جل جائے
ہر ایک لحظہ یہی آرزو ، یہی حسرت
جو آج دِل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے