صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
مکمل غزل
ساغر میں شکلِ دخترِ رز کچھ بدل گئی
خُم سے نکل کے نور کے سانچے میں ڈھل گئی
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
کہتی ہے نیم وا یہ چمن کی کلی کلی
فریادِ عندلیب کلیجہ مسل گئی
ساقی ادھر اٹھا تھا ادھر ہاتھ اٹھ گئے
بوتل سے کاگ اڑا تھا کہ رندوں میں چل گئی
انگڑائی لے کے اور بھی وہ سوئے چین سے
پھولوں کی پنکھیاں جو نسیم آ کے جھل گئی
دامن میں دختِ رز نے لگایا ضرور داغ
جس پارسا کی گود میں جا کر مچل گئی
گھبرا کے بولے نامۂ گستاخؔ تو نہیں
جب ان کے پاس کوئی ہماری غزل گئی
(حافظ محمد کرامت اللہ خاں گستاخؔ رامپوری)
No comments:
Post a Comment