کوئی کیسا ہمسفر ہے، یہ ابھی سے مت بتاؤ
ابھی کیا پتا کسی کا کہ چلی نہیں ہے ناؤ
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ سدا رہیں مراسم
یہ سفر کی دوستی ہے اسے روگ مت بناؤ
مرے چارہ گر بہت ہیں، یہ خلش مگر ہے دل میں
کوئی ایسا ہو کہ جس کو،ہوں عزیز میرے گھاؤ
تمہیں آئینہ گری میں، ہے بہت کمال حاصل
مرا دل ہے کرچی کرچی، اسے جوڑ کر دکھاؤ
کوئی قیس تھا تو ہوگا، کوئی کوہکن تھا، ہوگا
مرے رنج مختلف ہیں، مجھے ان سے مت ملاؤ
مجھے کیا پڑی ہے ساجد کہ پرائی آگ مانگوں
میں غزل کا آدمی ہوں، مرے اپنے ہیں الاؤ
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment