گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں
جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں
تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں
کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں
جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں
اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں
بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں
اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں
میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں
نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ زندگی تو ہے مگر. مرے مزاج کی نہیں
ترا سلوک مجھ کو یہ بتا رہا ہے آج کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں
کوئی تو شعر ہو وفور و کیفیت میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں
تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں
قبائے حُسن سے اُدھر بلا کا اک طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں
تمام زاویوں سے بات کر چکا، تو پھر کھُلا
یہ عشق وارداتِ قلب ہے جو گفتنی نہیں
کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ التفات جھیلنے. کی تاب ہی نہیں
کسی کا ذکر کیا مجھے تو خود سے بھی گریز ہے
میں کیا کروں کہ مجھ میں خوئے خودسپردگی نہیں
ہجومِ بد کلام جا رہا ہے دوسری طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں
مری غزل پہ داد دے رہے ہو، تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں
مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پُرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں
سنو بغور یہ غزل، کہ پھر بہت سکوت ہے
اگرچہ لگ رہا ہے یہ غزل بھی آخری نہیں
(عرفان ستار)
No comments:
Post a Comment