جب تصوّر میں کوئی ماہ جبیں ہوتا ہے
رات ہوتی ہے مگر دن کا یقیں ہوتا ہے
اُف وہ بیداد! عنایت بھی تصدّق جس پر
ہائے وہ غم! جو مسرّت سے حسیں ہوتا ہے
ہجر کی رات فسوں کارئ ظلمت مت پوچھ!
شمّع جلتی ہے مگر نُور نہیں ہوتا ہے
عشق میں معرکہْ قلب و نظر کیا کہئے
چوٹ لگتی ہے کہیں، درد کہیں ہوتا ہے
ہم نے دیکھے ہیں وہ عالم بھی محبّت میں حفیظؔ
آستاں خود جہاں مشتاقِ جبیں ہوتا ہے
حفیظؔ بنارسی
No comments:
Post a Comment