ٹکڑے نہیں جگر کے ہیں اشکوں کے تا ر میں
یہ لعل موتیوں کے پروئے ہیں ہار میں
قطرے نہیں پسینہ کے ہیں زلفِ یار میں
دُرّانی آگئے ہیں یہ مُلکِ تَتار میں
سُرمہ نہیں لگا ہوا مژگانِ یار میں
ہے زنگ سا لگا ہوا خنجر کی دھار میں
ساقی شتاب دے مجھے تو بھر کے جامِ مے
بیٹھا ہوں بے حواس نشہ کے اُتار میں
ہم حُسنِ گندمی پہ ترے ہو کے شیفتہ
کیا کیا ذلیل و خوار ہیں قرب و جوار میں
بعد از فنا بھی کم نہ ہوئی سوزشِ جگر
گرمی ہے اب تلک مرے خاکِ مزار میں
سایہ میں زلف کے ہے کہاں روئے تابناک
ہے چاند سا چھپا ہوا ابر بہار میں
مثلِ غبار اُٹھ کے جو تیری گلی سے جائے
طاقت کہا ں ہے اتنی ترے خاکسار میں
اُس ر شکِ گل کو اب تو دیا ہم نے دل ظفرؔ
کہہ دیں گے ہم زبان سے سو میں ہزار میں
No comments:
Post a Comment