قضا جو دے تو الٰہی ذرا بدل کے مجھے
ملے یہ جام انہی انکھڑیوں میں ڈھل کے مجھے
میں اپنے دل کے سمندر سے تشنہ کام آیا
پکارتی رہیں موجیں اچھل اچھل کے مجھے
نگاہ جس کے لیے بے قرار رہتی تھی
سزا ملی ہے اسے روشنی سے جل کے مجھے
میں رہزنوں کو کہیں اور دیکھتا ہی رہا
کسی نے لوٹ لیا پاس سے نکل کے مجھے
کہاں نجوم، کہاں راستے کی گردِ حقیر
عجیب وہم ہوا تیرے ساتھ چل کے مجھے
اب ایک سایہِ بے خانماں بھی ساتھ میں ہے
یہ کیا ملا ہے ترے شہر سے نکل کے مجھے
وہی حقیقتِ عمرِ دراز بن کے رہے
کسی نے خواب دیے تھے جو چند پل کے مجھے
کوئی بھی جب ہدفِ خنجرِ ادا نہ ملا
وہ دشتِ غم سے اٹھا لے گئے مچل کے مجھے
وارث کرمانی
No comments:
Post a Comment