ناصح یہاں یہ فکر ہے سینہ بھی چاک ہو
ہے فکر بخیہ تجھ کو گریباں کے چاک میں
زِیست آوارہ سہی زُلفِ پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور بڑھے
تو فروزاں ہی رہے شمعِ فروزاں کی طرح
اُس کی قُربت میں گزُارے ہُوئے لمحوں کا خیال
اب بھی پیوست ہے دِل میں کسی پیکاں کی طرح
اُس کی آنکھوں میں بھی روشن ہیں تمنّا کے چراغ
اُس کا دامن بھی ہے اب میرے گریباں کی طرح
اب کسی جانِ تمنا کو بَھلا کیا معلوُم
دِل سُلگتا ہے چراغِ تہہِ داماں کی طرح
ایک دستک سی درِ دِل پہ سُنائی دی ہے
کون گزُرا ہے نسیمِ چمَنِستاں کی طرح
یوں نہ ہو پھر کوئی بے رحم ہَوا کا جھونکا
لے اُڑے کشتیِ دِل موجۂ طُوفاں کی طرح
جُرم اِتنا، کہ نہ تھا غمزۂ خُوباں کا دماغ
قید اِس شہر میں ہیں یُوسفِ کنعاں کی طرح
ہم سے اُلجھیں نہ فقیہانِ حرَم سے کہہ دو
ہم بھی مجبُور ہیں اِس دَور کے اِنساں کی طرح
کوئی آواز نہ آہٹ ، نہ کوئی شوخ کِرن
ذہن تاریک ہے اب گوشۂ زنداں کی طرح
آؤ ہم اہلِ جنُوں مشعلِ جاں لے کے چلیں
راہ پُرپیچ سہی کاکُلِ پیچاں کی طرح
زندگی باعثِ آزارِ دِل و جاں ہے مُجیب
قہر برسا ہے، مگر رحمتِ یزداں کی طرح
مجیب خیر آبادی
مرا چہ عیش کہ دارم دو دشمنِ آرام
دلِ فگار یکے، جانِ بے قرار یکے
واقف لاہوری
میرا عیش سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ میرے آرام کے دو دشمن ہیں
ایک پریشان دل اور ایک بیقرار جان
عالم بہ وجودِ من و تو موجود است
گر موج و حباب نیست، دریا ھم نیست
(ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل)
یہ عالم میرے اور تیرے وجود کی وجہ سے موجود ہے، اگر موج اور بلبلے نہ ہوں تو دریا بھی نہیں ہے۔
مرا ز روزِ قیامت غمے کہ ھست، اینست
کہ روئے مردُمِ عالم دوبارہ باید دید
(روزِ قیامت کا مجھے جو غم ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کے لوگوں کا چہرہ دوبارہ دیکھنا پڑے گا)
پس منظرِ عروج میں میری شکست ہے
فتحِ مبیں جو حال ہے ماضی شکست ہے
جی چاہتا ہے پہلی محبت کہوں تجھے
لیکن یہ سچ ہے تو مری پہلی شکست ہے
تنہا نہ لڑسکوں گا زمانے کے ساتھ میں
قربت ہماری جیت ہے دوری شکست ہے
مجھ کو کسی عدو سے ہزیمت نہیں ہوئی
میں نے خود اپنے آپ سے کھائی شکست ہے
اے وقت کے یذید ترا جشن ہے عبث
گردن مری اڑا کے بھی تیری شکست ہے
شیراز ساگر
ہر مصلحت پسند نے کردار بیچ کر
گردن بچاٸی جراتِ اظہار بیچ کر
یونہی تو بارگاہ میں مسند نہیں ملی
خلعت ملی ہے آپ کو گفتار بیچ کر
مرنے لگا تو تھے درودیوار بے خبر
مدت سے جی رہا تھا جو اخبار بیچ کر
طرزِ قدیم چھوڑ یے دشمن جدید ہے
کاغذ قلم خرید یے تلوار بیچ کر
محنت کی تیز دھوپ میں تعطیل جل گٸی
خوشیاں خریدنی پڑیں اتوار بیچ کر
شیراز ساگر
اداس لوگوں کی بستیوں میں
وہ تتلیوں کو تلاش کرتی
وہ ایک لڑکی . . .
وہ گول چہرہ ، وہ کالی آنکھیں
جو کرتی رہتی ہزار باتیں
مزاج سادہ ، ، ، وہ دل کی اچھی
وہ ایک لڑکی . . .
ساری باتیں وہ دل کی مانے
وہی کرے وہ ، جو دل میں ٹھانے
کوئی نا جانے ، ، کیا اس کی مرضی
وہ ایک لڑکی . . .
وہ چاہتوں کے سراب دیکھے
محبتوں کے وہ خواب دیکھے
وہ خود سمندر مگر ہے پیاسی
وہ ایک لڑکی . . .
وہ دوستی کے نصاب جانے
وہ جانتی ہے عہد نبھانے
وہ اچھی دوست وہ اچھی ساتھی
وہ ایک لڑکی . . .
وہ جام چاہت کا پینا چاھے
وہ اپنے مرضی سے جینا چاھے
مگر ہے ڈرتی ، ، ، مگر ہے ڈرتی
وہ ایک لڑکی . . .
محبتوں کا جو فلسفہ ہے
وہ جانتی ہے ، ، ، اسے پتہ ہے
وہ پھر بھی رہتی ڈری ڈری سی
وہ ایک لڑکی . . .
وہ جھوٹے لوگوں کو سچا سمجھے
وہ ساری دنیا کو اچھا سمجھے
وہ کتنی سادی ، ، ، وہ کتنی پگلی
وہ ایک لڑکی
گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتا ً بھی قدم لرکھڑائے ہیں!!
"خمار بارہ بنکوی"
ﻋﺸﻖ ﻣﺰﻣﻞ ، ﻋﺸﻖ ﻣﺪﺛﺮ ، ﻃٰﮧٰ ﺗﮯ ﯾٰﺴﯿﻦ
ﻇﺎھﺮ ﺑﺎﻃﻦ ﺫﺍﺕ ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ، ﺍﯾﮩﻮ ﻣُﮉﮪ ﺍﺧﯿﺮ
ﻋﺸﻖ ﺷﮩﯿﺪ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﺣﻖ ﺩﯼ ﻋﺸﻖ ﺭﺿﺎ ﺩﺍ ﺑﻨﺪﮦ
ﻋﺸﻖ ﺍﻭﯾﺲؒ، ﺍﺑﻮﺫﺭؓ، ﺟﺎﻣﯽؒ، ﻋﺸﻖ ﻋﻠﯽؓ ﺷﺒﯿﺮؓ
ﻋﺸﻖ ﺩﺍ ﮈﯾﺮﮦ ﺳﻮﻟﯽ ﺍُﭘﺮ، ﻋﺸﻖ ﺗﮯ ﻣﻮﺕ ﺣﺮﺍﻡ
ﻭﺻﻞ ﻓﺮﺍﻕ ﺗﻮﮞ ﻋﺸﻖ ﺍﮔﯿﺮﮮ ، ﻋﺸﻖ ﺳﻤﯿﻊ ﺑﺼﯿﺮ
ﻣﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﺪﺍ ، ﺟﯽ ﮐﮯ ﻣَﺮﺩﺍ، ﻋﺸﻖ ﺑﮍﺍ کجھ ﮐﺮﺩﺍ
“ﻣﻮﺗﻮ ﻗﺒﻞ“ ، ”ﺑﻞ ﺍﺣﯿﺎﮬﻢ” ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﺫﺍﺕ ﻗﺪﯾﺮ
ﻋﻘﻼﮞ ﻧﺎﻝ ﻋﺸﻖ ﻧﮧ ھوندا، ﻋﺸﻖ ﺩﯼ ﺍُﻟﭩﯽ ﭼﺎﻝ
ﻋﺸﻖ ھﻮﻭﮮ ﺗﮯ ﻭﮔﺪﮮ ﻭﺍﺻﻒؔ ، ﺍﮐﮭﺎﮞ ﺩﮮ ﻭﭺ ﻧﯿﺮ
”واصف علی واصف“
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصہ ء غم آ تو گئے ہم
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم
کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم
جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر
دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم
کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں
رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم
اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے
پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم
اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ
لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم
حبیب جالب
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر ، اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اس کا پردہِ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری ، پردہ کیا بغیر
یاراں! وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے ، اچھا کیے بغیر
میں بسترِ خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبحِ ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
اس کا ہے جو بھی کچھ ، ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہیے کوئی سودا کیے بغیر
یہ زندگی جو ہے اسے معنی بھی چاہیے
وعدہ ہمیں قبول ہے ، ایفا کیے بغیر
اے قاتلوں کے شہر! بس اتنی سی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل ، کوئی تماشا کیے بغیر
مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بےحساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو ، صحرا کیے بغیر
ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا
آرائشِ نظر تری ، پروا کیے بغیر
یاراں! خوشا! یہ روز و شبِ دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوشگوار ، گوارا کیے بغیر
گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں ، گریہ کیے بغیر
آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے ، توبہ کیے بغیر
سنی بچہ وہ کون تھا ، جس کی جفا نے جون
شیعہ بنا دیا ہمیں ، شیعہ کیے بغیر
اب تم کبھی نہ آؤ گے ، یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
قیس جنگل میں اکیلا ہے، مجھے جانے دو۔۔
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔۔
جاں بلب دیکھ کے مجھ کو میرے عیسٰی نے کہا،
لا دوا درد ہے یہ ، کیا کروں ؟ مر جانے دو۔۔
لال ڈورے تیری آنکھوں میں جو دیکھے تو کُھلا،
مئے گل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو۔۔
ٹھہرو ! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر؟
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اُتر جانے دو۔۔
منع کیوں کرتے ہو عشقِ بتِ شیریں لب سے،
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو، غم کھانے دو۔۔
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے،
قافلہ یاروں کا اگر جاتا ہے ، جانے دو۔۔
شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار،
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں پروانے دو۔۔
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمہیں،
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو۔۔
سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک،
پڑ گئے ہیں تیری شمشیر میں دندانے دو۔۔
واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی،
میں نہ سمجھونگا کسی طرح سے، سمجھانے دو۔۔
رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاح،
مانو کہنے کو میرے، دور کرو، جانے دو۔۔
۔۔۔۔
میاں داد خان سیّاح
دن گزر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
زخم بھر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں
کوچ کر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں
ہم مکر جائیں گے، سرکار کوئی بات نہیں
رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے
ہنس کے مر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
نکل آئے ہیں عدم سے تو ججھکنا کیسا
در بدر جائیں گے سرکار کوئی بات نہیں
زندگی پاؤں نہ دھر جانب انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سر شام ابھی
اک نظر اور ادھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لکھا ہے آرام ابھی
جان دینے میں کروں دیر یہ ممکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
طائر دل کے ذرا پر تو نکل لینے دو
اس پرندے کو بھی آنا ہے تہ دام ابھی
توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے ہاتھوں میں ہے موجود ترے ہاتھ کا لمس
دل میں برپا ہے اسی شام کا کہرام ابھی
میں ترا حسن سخن میں ابھی ڈھالوں کیسے
میرے اشعار بنے ہیں کہاں الہام ابھی
مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی
یاد کے ابر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیم
اک دھندلکا سا ہے بھیگی تو نہیں شام ابھی
اقبال ارشد
تجھ سے کرب ذات کا اظہار کیسے ہو گیا ؟
تُو محبت کے لئے مسمار کیسے ہو گیا ؟
موم جیسے لوگ کہساروں میں کیسے ڈھل گئے ؟
جن کا لہجہ پھول تھا تلوار کیسے ہو گیا ؟
میں نے تو ہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہو گیا ؟
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا
ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا