پس منظرِ عروج میں میری شکست ہے
فتحِ مبیں جو حال ہے ماضی شکست ہے
جی چاہتا ہے پہلی محبت کہوں تجھے
لیکن یہ سچ ہے تو مری پہلی شکست ہے
تنہا نہ لڑسکوں گا زمانے کے ساتھ میں
قربت ہماری جیت ہے دوری شکست ہے
مجھ کو کسی عدو سے ہزیمت نہیں ہوئی
میں نے خود اپنے آپ سے کھائی شکست ہے
اے وقت کے یذید ترا جشن ہے عبث
گردن مری اڑا کے بھی تیری شکست ہے
شیراز ساگر
No comments:
Post a Comment