ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر ، اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اس کا پردہِ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری ، پردہ کیا بغیر
یاراں! وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے ، اچھا کیے بغیر
میں بسترِ خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبحِ ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
اس کا ہے جو بھی کچھ ، ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہیے کوئی سودا کیے بغیر
یہ زندگی جو ہے اسے معنی بھی چاہیے
وعدہ ہمیں قبول ہے ، ایفا کیے بغیر
اے قاتلوں کے شہر! بس اتنی سی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل ، کوئی تماشا کیے بغیر
مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بےحساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو ، صحرا کیے بغیر
ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا
آرائشِ نظر تری ، پروا کیے بغیر
یاراں! خوشا! یہ روز و شبِ دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوشگوار ، گوارا کیے بغیر
گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں ، گریہ کیے بغیر
آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے ، توبہ کیے بغیر
سنی بچہ وہ کون تھا ، جس کی جفا نے جون
شیعہ بنا دیا ہمیں ، شیعہ کیے بغیر
اب تم کبھی نہ آؤ گے ، یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
No comments:
Post a Comment