قیس جنگل میں اکیلا ہے، مجھے جانے دو۔۔
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔۔
جاں بلب دیکھ کے مجھ کو میرے عیسٰی نے کہا،
لا دوا درد ہے یہ ، کیا کروں ؟ مر جانے دو۔۔
لال ڈورے تیری آنکھوں میں جو دیکھے تو کُھلا،
مئے گل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو۔۔
ٹھہرو ! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر؟
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اُتر جانے دو۔۔
منع کیوں کرتے ہو عشقِ بتِ شیریں لب سے،
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو، غم کھانے دو۔۔
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے،
قافلہ یاروں کا اگر جاتا ہے ، جانے دو۔۔
شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار،
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں پروانے دو۔۔
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمہیں،
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو۔۔
سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک،
پڑ گئے ہیں تیری شمشیر میں دندانے دو۔۔
واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی،
میں نہ سمجھونگا کسی طرح سے، سمجھانے دو۔۔
رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاح،
مانو کہنے کو میرے، دور کرو، جانے دو۔۔
۔۔۔۔
میاں داد خان سیّاح
No comments:
Post a Comment