ہر مصلحت پسند نے کردار بیچ کر
گردن بچاٸی جراتِ اظہار بیچ کر
یونہی تو بارگاہ میں مسند نہیں ملی
خلعت ملی ہے آپ کو گفتار بیچ کر
مرنے لگا تو تھے درودیوار بے خبر
مدت سے جی رہا تھا جو اخبار بیچ کر
طرزِ قدیم چھوڑ یے دشمن جدید ہے
کاغذ قلم خرید یے تلوار بیچ کر
محنت کی تیز دھوپ میں تعطیل جل گٸی
خوشیاں خریدنی پڑیں اتوار بیچ کر
شیراز ساگر
No comments:
Post a Comment